انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت سری نگر سے تعلق رکھنے والے 22 سالہ سید ابو محمد ہمدانی سول انجینیئرنگ کے طالب علم ہیں اور انہیں ماؤنٹین بائیکنگ (ایم ٹی بی) سے گہری محبت ہے۔
اس کھیل میں ان کی دلچسپی اُس وقت شروع ہوئی، جب انہوں نے آن لائن بین الاقوامی سواروں کی ویڈیوز دیکھیں اور پھر اپنی صلاحیتوں کو جانچنے کے لیے شنکراچاریہ پہاڑی تک جا کر ایک پرانی سائیکل کے ساتھ خود ہی مشق شروع کر دی۔
پچھلے پانچ سالوں سے، محمد ہمدانی اسی پہاڑی پر اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنا رہے ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ کشمیر ڈاؤن ہل نامی ایک گروپ میں شامل ہو گئے، جو نوجوان سائیکل سواروں پر مشتمل ہے۔
ان کا ماننا ہے کہ کشمیر میں اس کھیل کے لیے زبردست صلاحیت موجود ہے اور یہاں کی سر زمین اپنے منفرد اور دشوار گزار پہاڑی راستوں کی وجہ سے اس کھیل کے لیے زرخیز ہے۔
ماؤنٹین بائیکنگ ایک مہنگا کھیل ہے۔ محمد ہمدانی ایک پیشہ ور ایم ٹی بی سائیکل کے مالک ہیں، جس کی قیمت تقریباً 1500 سے 2000 ڈالر ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ سائیکل کچے راستوں کے لیے بنائی گئی ہے لیکن اگر کوئی حصہ ٹوٹ جائے تو اس کا متبادل منگوانا پڑتا ہے، جو مہنگا پڑ سکتا ہے۔ سائیکل کے ساتھ ساتھ محمد ہمدانی پریکٹس کے دوران اپنی حفاظت کے لیے ہیلمٹ اور دیگر حفاظتی آلات بھی استعمال کرتے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں محمد ہمدانی نے مرحوم فضل وانی کی خدمات کے بارے میں بات کی، جو کشمیر میں ماؤنٹین بائیکنگ کے سب سے پہلے مشہور سواروں میں سے ایک تھے۔
بقول ہمدانی: ’شنکراچاریہ ہل پر آج ہم جن پگڈنڈیوں پر سوار ہیں، وہ پہلے سے ہی موجود تھے، لیکن فضل وانی نے انہیں ماؤنٹین بائیکنگ کے لیے بہتر بنا دیا۔‘
ماؤنٹین بائیکنگ کے لیے مہارت اور صحیح سامان کی ضرورت ہوتی ہے۔ محمد ہمدانی تیز رفتاری سے نیچے کی طرف سفر کرتے ہوئے شنکراچاریہ ہل کے جنگلات والے راستوں پر مشق کرتے ہیں۔ سواری کے دوران خوبصورت مناظر، تیز ہوا اور ڈل جھیل کا خوبصورت نظارہ ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
جب وہ اپنی سائیکل پر پہاڑ سے نیچے اترتے ہیں تو پہاڑی پر آنے والے سیاح اکثر ان کی مہارت پر حیران رہ جاتے ہیں اور کہتے ہیں: ’لوگ یقین نہیں کر سکتے کہ میں یہاں تک سائیکل لا سکتا ہوں۔‘
ماؤنٹین بائیکنگ کے چیلنجوں کے بارے میں ہمدانی نے بتایا: ’یہ سب کے لیے نہیں ہے۔ آپ کو بہت مشق کی ضرورت ہے۔ میں کشمیر ڈاؤن ہل سے اپنے دوستوں کے ساتھ سواری کرتا ہوں۔ ہم کشمیر میں نئی جگہیں تلاش کرتے ہیں اور اپنی ویڈیوز کے ذریعے کشمیر کا ایک مختلف چہرا دنیا کو دکھاتے ہیں۔‘
محمد ہمدانی اکثر اکیلے سواری کرتے ہیں، خاص طور پر جب وہ مشق کر رہے ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی وہ پہاڑی پر اکیلے شخص ہوتے ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’جب میں اپنی ویڈیوز آن لائن پوسٹ کرتا ہوں، تو لوگ واقعی انہیں پسند کرتے ہیں۔ میری کچھ ویڈیوز کو لاکھوں ویوز مل چکے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ خوبصورت اور دلچسپ لگتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ بالکل آسان نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں کہ ان پہاڑیوں اور پہاڑوں پر سوار ہونا کتنا مشکل ہے۔‘
ہمدانی اور ان کے دوستوں کو امید ہے کہ زیادہ سے زیادہ نوجوان ماؤنٹین بائیکنگ کو اپنائیں گے اور یہ کھیل خطے میں زیادہ مقبول ہوجائے گا۔