افغان نوجوان فرانس میں سنو بورڈنگ سے خوش، خاندان کے لیے پریشان

سنو بورڈر مصور خانزئی تقریباً 20 پرجوش افغان نوجوان بورڈرز کے ایک چھوٹے سے گروپ کا حصہ تھے، لیکن طالبان کی اقتدار میں واپسی نے ان کے خوابوں کو چکنا چور کر دیا اور وہ فرانس جانے پر مجبور ہوگئے۔

افغان سیاسی پناہ گزین اور سنو بورڈر مصور خانزئی 29 جنوری 2025 کو فرانسیسی پریالپس بوجز پہاڑوں میں سیمنز ریزورٹ کے قریب ایک ڈھلوان پر بورڈنگ کر رہے ہیں (اے ایف پی)

ایک وقت تھا جب سنو بورڈرز مصور خانزئی اور نسیمہ زیرک افغانستان میں ہندوکش پہاڑوں کی برفیلی ڈھلوانوں پر چڑھ کر نیچے آنے کی ’آزادی‘ سے لطف اندوز ہوتے تھے۔

لیکن افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی نے ان کے خوابوں کو چکنا چور کر دیا اور انہیں موت کی دھمکیوں کے درمیان جلاوطنی پر مجبور کر دیا۔ نئے حکمرانوں نے اسے ’مغربی‘ طرزِ عمل قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی۔

فرانس میں گذشتہ دو سالوں سے مقیم مصور نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’سنو بورڈنگ میرے لیے زندہ رہنے کی ایک وجہ تھی۔‘

مصور خانزئی کابل میں پلے بڑھے۔ اگست 2021 میں وہ 18 سال کے تھے جب امریکہ نے افغانستان سے اپنی فوجیں نکالیں، جس کے نتیجے میں افغان نیشنل فورسز تیزی سے ختم ہوئی اور دو دہائیوں کی خونریز گوریلا جنگ کے بعد طالبان دوبارہ اقتدار میں آئے۔

اس وقت مصور تقریباً 20 پرجوش شوقیہ افغان بورڈرز کے ایک چھوٹے سے گروپ کا حصہ تھے۔

ان کا وسیع کھیل کا میدان ہندوکش پہاڑوں کا سلسلہ تھا، جس کی سطح سمندر سے چھ ہزار میٹر سے زیادہ بلند چوٹیاں تھیں۔

افغانستان میں موسم سرما کے کھیلوں کے بنیادی ڈھانچے اور یہاں تک کہ انسٹرکٹرز کی کمی کی وجہ سے سنو بورڈنگ ایک مشکل محبت تھی۔ شائقین کو ڈھلوانوں پر سوار ہونے کے لیے اس تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے پہاڑوں پر چڑھنا پڑتا تھا، جو انہوں نے یوٹیوب ویڈیوز سے سیکھی تھیں۔

مصور خانزئی نے کہا کہ ’جب آپ برف پر چڑھتے ہیں تو آزادی کے احساس‘ کے لیے یہ کوشش قابلِ قدر تھی۔

طالبان کی واپسی سے قبل بھی سنو بورڈنگ نے ایک ایسے ملک میں راحت فراہم کی، جو اس وقت بھی غیر مستحکم اور پرتشدد تھا۔

مصور نے کہا: ’کھیل کا مقصد ہمیشہ امن رہا ہے، جنگ نہیں۔‘

پاکستان میں ایک بین الاقوامی مقابلے میں فرانسیسی پیشہ ور سنو بورڈر وکٹر ڈیویٹ کے ساتھ ایک ملاقات ان کے فرانس جانے کا باعث بنی۔

35 سالہ ڈیویٹ نے کہا: ’بنیادی صلاحیتوں کے باوجود، وہ امید سے بھرپور تھے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ ڈیویٹ کی ’سنو بورڈرز آف سالڈیریٹی‘ ایسوسی ایشن تھی، جس نے 2022 کے موسم خزاں میں سات افغان نوجوانوں کی فرانسیسی ویزا حاصل کرنے میں مدد کی۔

یہ کھیل کی طاقت کا بھی ثبوت تھا۔ ڈیویٹ نے کہا: ’ہم بہت زیادہ خوش قسمت تھے، یہ تقریباً ایک معجزہ تھا۔‘

افغانستان میں انہیں صرف ایک ’مغربی‘ سرگرمی پر عمل کرنے، خاص طور پر ان کی مخلوط ٹیم کو جان سے مارنے کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

اے ایف پی نے تاہم ان دھمکیوں کے بارے میں افغان طالبان کا موقف نہیں بتایا ہے۔

23 سالہ زیرک نے کہا: ’لڑکیاں اور لڑکے جو ایک ساتھ کھیلتے ہیں، طالبان کو یہ پسند نہیں ہے۔‘

زیرک، جو مصور خانزئی کی طرح جنوب مشرقی فرانس میں سیویارڈ ایلپس کے دامن میں اینیسی میں رہتی ہیں، اب فرانسیسی بول سکتی ہیں۔

وہ گرافک ڈیزائننگ کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں جبکہ مصور کاروبار کر رہے ہیں۔ دونوں اپنے نئے گھر میں مکمل طور پر خوش ہیں اور آس پاس کی ڈھلوانوں پر بورڈنگ کے مواقعے کبھی نہیں گنواتے۔

اپنی پڑھائی کے علاوہ زیرک کہتی ہیں: ’میں کام کرتی ہوں اور کھیلتی بھی ہوں۔‘

انہیں وہ ’آزادی‘ حاصل ہے جو افغانستان میں ممکن نہیں، جہاں طالبان نے اقتدار میں واپسی کے بعد سے منظم طریقے سے خواتین کے حقوق کو سلب کیا ہے۔

زیرک کا خاندان اب بھی کابل میں رہتا ہے لیکن مصور کے خاندان کو پاکستان جانے پر مجبور کیا گیا۔

انہوں نے بتایا: ’وہ میری وجہ سے وہاں موجود ہیں۔ طالبان نے مجھ پر ہاتھ نہ ڈالنے کی صورت میں ان پر حملہ کرنے کی دھمکی دی تھی۔‘

انہوں نے کہا: ’میں یہاں آ کر خوش ہوں، میں ایک طرح سے بچ گیا ہوں۔ میں اس صورت حال سے تو بچ گیا لیکن میں پوری طرح خوش نہیں ہوں کیونکہ میرا گھرانہ بہت پیچیدہ صورت سے دوچار ہے اور میرے لوگ اس وقت تکلیف میں ہیں۔‘

ان کے کچھ افغان دوست اس ماہ کے آخر میں چین میں ہونے والے 2025 کے ایشیائی سرمائی کھیلوں کے لیے کوالیفائی کر چکے ہیں۔

یہاں تک کہ وہ لوگ بھی ہیں، جو اگلے سال اٹلی میں ہونے والے سرمائی کھیلوں میں پناہ گزینوں کی اولمپک ٹیم میں حصہ لینے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔

لیکن مصور خانزئی کے لیے یہ ترجیح نہیں ہے۔ ان کے لیے اپنی زندگی کو دوبارہ بنانا اور اپنے دوستوں کی مدد کرنا سب سے اہم ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل