انڈیا: ڈونٹس کی دکان بیکری ہے یا ریستوران، فیصلہ عدالت کرے گی

انڈیا کی ایک عدالت نے فیصلہ کرنا ہے کہ ڈونٹس ریستوران سروسز کا حصہ ہے یا اس کا شمار بیکری مصنوعات میں ہونا چاہیے۔

ایک دکان کی شوکیس میں رنگ برنگے مختلف ذائقوں والے ڈونٹس رکھے دیکھے جا سکتے ہیں (اینواتو)

انڈیا کی ایک عدالت میں یہ مقدمہ زیر سماعت ہے جس میں یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ ڈونٹس پر پانچ فیصد ٹیکس لگے یا 18 فیصد۔ عدالتی فیصلہ ملک کی ریستوران اور بیکری کی صنعت پر گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔

تنازعے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ڈونٹس کو ریسٹورنٹ سروسز کا حصہ سمجھا جائے، جس پر انڈیا کے گڈز اینڈ سروسز ٹیکس(جی ایس ٹی)  کے تحت پانچ فیصد ٹیکس عائد ہوتا ہے، یا انہیں ایک علیحدہ بیکری پروڈکٹ تصور کیا جائے جس پر 18 فیصد جی ایس ٹی عائد ہوتا ہے۔

یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب ڈونٹ چین ’میڈ اوور ڈونٹس‘ کے انڈین یونٹ نے انڈیا کے ڈائریکٹوریٹ جنرل آف گڈز اینڈ سروسز ٹیکس انٹیلیجنس (ڈی جی سی آئی) کے نوٹس کو چیلنج کیا جس میں کمپنی کو ٹیکس چوری کا مرتکب قرار دیا گیا۔ 

حکام نے کہا کہ کمپنی نے اپنے کاروبار کو غلط طور پر ریستوران سروس کے طور پر درج کرایا اور اسے ایک  ارب روپے سے زائد بقایہ جات کے ساتھ ٹیکس ادا کرنے کا حکم دیا۔

اسی طرح کے نوٹسز ڈنکن ڈونٹس، تھیوبروما اور کرسپی کریم چینز کو بھی جاری کیے گئے۔

اخبار دی اکنامک ٹائمز کے مطابق نوٹس میں کہا گیا کہ ڈی جی سی آئی  نے اپنی تحقیقات کے دوران میڈ اوور ڈونٹس کے ہیڈ شیف سے پوچھ گچھ کی جنہوں نے مبینہ طور پر بتایا کہ ڈونٹس مرکزی کچن میں تیار کیے جاتے ہیں اور پھر انہیں مختلف آؤٹ لیٹس پر بھیجا جاتا ہے۔

ان آؤٹ لیٹس پر ’گارنشنگ، چاکلیٹ لگانے اور پیکنگ‘ کا کام کیا جاتا ہے، جس کے بعد یہ اشیا ’کاؤنٹر پر فروخت‘ کی جاتی ہیں۔

پیر کو ممبئی ہائی کورٹ کے جسٹس بی پی کولاباولہ اور فردوش پی پونی والا پر مشتمل ڈویژن بینچ نے میڈ اوور ڈونٹس کی مالک کمپنی، ہیمیش فوڈز پرائیویٹ لمیٹڈ کی درخواست کی سماعت کی۔

میڈ اوور ڈونٹس کا مؤقف ہے کہ وہ ریسٹورنٹ کے طور پر درج ہونے کے تمام معیارات پر پورا اترتے ہیں کیوں کہ ان کے تمام آؤٹ لیٹس میں کھانے کو گرم کرنے کے لیے کچن موجود ہے اور ڈونٹس فروخت سے پہلے حتمی تیاری کے مرحلے سے گزرتے ہیں۔

قانون نافذ کرنے والے انڈین ادارے نے مؤقف اختیار کیا کہ ان آؤٹ لیٹس پر موجود کچن جی ایس ٹی ایکٹ کی شرائط کے اعتبار سے ’سروس کی تعریف کو حد سے وسیع کر رہے ہیں۔‘ 

حکام کے مطابق ’ڈونٹس پر گارنشنگ محض انہیں فروخت سے پہلے گاہکوں کے لیے پرکشش بنانے کا ایک طریقہ ہے جو بالکل اسی طرح ہے جیسے مٹھائی فروش مختلف قسم کی تہہ چڑھا کر یا خشک میوہ جات لگار کر مٹھائیاں تیار کرتے ہیں۔‘

میڈ اوور ڈونٹس کے وکیل ابھیشیک رستوگی نے عدالت کے سامنے جی ایس ٹی نوٹیفیکیشنز کا حوالہ دیا، جن کے مطابق ریسٹورنٹس، کھانے کے مراکز، میس اور کینٹینز میں فروخت ہونے والی خوراک پر پانچ فیصد ٹیکس عائد ہوتا ہے، چاہے وہ وہیں کھائی جائے یا پیک کرا لی جائے۔

انہوں نے مزید کہا: ’ؔاگر کسی وجہ سے اس حکم کو حقیقت پسندانہ انداز میں نہ نمٹایا گیا تو خوراک اور مشروبات کے شعبے میں شدید رخنہ پڑنے کا امکان ہے۔‘

عدالت نے فیصلہ دیا کہ کیس کے زیر سماعت رہنے تک میڈ اوور ڈونٹس کے خلاف کوئی جبری کارروائی نہیں کی جا سکتی، اور اگلی سماعت کے لیے 24 مارچ کی تاریخ مقرر کر دی۔

گذشتہ چند سال میں انڈیا میں  ٹیکس کی بعض دوسری درجہ بندیوں سے متعلق تنازعات سامنے آئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سب سے نمایاں معاملہ ستمبر 2022 میں سامنے آیا جب حکام نے اصرار کیا کہ فروزن مالابار پراٹھا (جو بنیادی طور پر کیرالہ اور تمل ناڈو میں تیار ہونے والا لچھے دار پراٹھا ہوتا ہے) پر فروزن روٹی کے مقابلے میں زیادہ ٹیکس عائد کیا جانا چاہیے، کیوں کہ اسے پکنے میں زیادہ وقت لگتا ہے اور اس لیے اسے کھانے کے لیے فوری طور پر تیار تصور نہیں کیا جا سکتا۔

گذشتہ سال پاپ کارن پر بھی اسی طرح کا تنازع کھڑا ہوا جب انڈیا کی وزیر خزانہ نرملا سیتارامن نے اعلان کیا کہ کیرامل پاپ کارن پر عام نمکین پاپ کارن کے مقابلے میں زیادہ ٹیکس عائد ہوگا کیوں کہ ’چینی لگی کسی بھی پروڈکٹ پر مختلف ٹیکس ریٹ لاگو ہوتا ہے۔‘

تین دہائیاں قبل برطانیہ میں بھی اسی نوعیت کا مشہور ٹیکس تنازع سامنے آیا  یعنی جافا کیکس پر قانونی جنگ۔ عدالتوں میں بحث کی گئی کہ آیا یہ بِسکٹ ہیں، جن پر 20 فیصد ٹیکس عائد ہوتا ہے، یا کیک، جو ویلیو ایڈڈ ٹیکس (وی اے ٹی) سے مستثنیٰ ہیں۔

میکویٹیز نامی کمپنی جو جافا کیکس تیار کرتی ہے، نے مؤقف اختیار کیا کہ باسی ہونے کے بعد یہ کیک سخت ہو جاتے ہیں، کسی کیک کی طرح جب کہ بسکٹ باسی ہونے پر نرم اور نم دار ہو جاتے ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا