اسرائیل نے اتوار کو غزہ میں فائر بندی پر مزید مذاکرات کے لیے وفد دوحہ بھیجنے کی تیاری کر لی، جب کہ حماس نے فائر بندی کے دوسرے مرحلے پر فوری مذاکرات شروع کرنے کا مطالبہ کیا ہے، جس کے بارے میں اسے امید ہے کہ اس سے جنگ کے مستقل خاتمے کی راہ ہموار ہو گی۔
فلسطینی تنظیم حماس کے نمائندوں نے اختتام ہفتہ پر قاہرہ میں ثالث ملکوں کے نمائندوں ملاقات کی۔ حماس کے بیان کے مطابق انہوں نے محصور علاقے میں امداد کی ’بلا رکاوٹ اور بغیر کسی شرط کے بحالی کی فوری ضرورت پر زور دیا۔‘
حماس کے سینیئر رہنما محمود مرداوی نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’حماس اس بات پر زور دیتی ہے کہ قابض فورسز کو متفقہ نکات کے تحت فوری طور پر دوسرے مرحلے کے مذاکرات شروع کرنے پر مجبور کیا جائے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ یہ اقدام جنگ کے مستقل خاتمے کی راہ ہموار کرے گا۔
مرداوی کے مطابق دوسرے مرحلے میں حماس کے اہم مطالبات میں غزہ سے اسرائیلی فوج کا مکمل انخلا، اسرائیلی ناکہ بندی کا خاتمہ، فلسطینی علاقے کی تعمیر نو اور مالی مدد شامل ہیں۔
ثالث ملکوں کے ساتھ بات چیت کے بعد حماس کے ترجمان عبد اللطیف القنوع نے کہا کہ اب تک کے اشارے ’مثبت‘ ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کے دفتر نے اعلان کیا کہ پیر کو دوحہ میں مذاکرات کے لیے وفد بھیجا جائے گا جب کہ اسرائیلی میڈیا کے مطابق حکومت کا سکیورٹی کابینہ اتوار کو اس معاملے پر تبادلہ خیال کرے گی۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ فائر بندی کے پہلے مرحلے میں وسط اپریل تک توسیع چاہتا ہے۔
یہ ابتدائی مرحلہ یکم مارچ کو ختم ہوا جس سے پہلے چھ ہفتے تک نسبتاً سکون رہا۔ اس دوران 25 زندہ یرغمالیوں اور آٹھ لاشوں کا تبادلہ تقریباً 1800 فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے میں کیا گیا جو اسرائیل کی جیلوں میں قید تھے۔
فائر بندی نے بڑی حد تک غزہ میں 15 ماہ سے جاری جنگ کو روک دیا، جہاں اسرائیل کی بے رحمانہ فوجی کارروائی کے نتیجے میں تقریباً پوری آبادی بے گھر ہو چکی ہے۔
فائر بندی کے دوران غزہ میں ضروری خوراک، پناہ گاہ اور طبی امداد کی ترسیل ممکن ہوئی۔
لیکن جب اسرائیل نے دوبارہ اس امداد کو روک دیا تو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی تنظیموں نے حکومت پر ’بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرنے‘ کا الزام لگایا۔
بے گھر ہونے والی فلسطینی بیوہ حنین الدورا نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ اور ان کے بچے کئی ہفتے سڑکوں پر ’کتوں اور چوہوں کے درمیان‘ گزارنے پر مجبور تھے جس کے بعد انہیں ایک خیمہ ملا۔
انہوں نے کہا کہ گھر کی کفالت کرنے والی ہونے کے ناطے یہ صورت حال بہت پریشان کن تھی، اور میں رات بھر سو نہیں پاتی تھی۔‘
’آخری انتباہ‘
گذشتہ ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا کہ اگر باقی تمام قیدیوں کو رہا نہ کیا گیا تو غزہ میں مزید تباہی ہو گی۔ انہوں نے حماس کے رہنماؤں کو ’آخری وارننگ‘ دینے کا اعلان کیا۔
انہوں نے غزہ کے تمام مکینوں کو بھی دھمکی دی اور کہا کہ ’ایک خوبصورت مستقبل تمہارا انتظار کر رہا ہے لیکن نہیں اگر تم یرغمالیوں کو روکے رکھو۔ اگر تم نے ایسا کیا، تو تم مَر چکے۔‘
حماس نے کہا کہ ٹرمپ کی دھمکیاں اسرائیل کو فائر بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی پر مزید اکسانے کا سبب بنیں گی۔
ٹرمپ انتظامیہ نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ اس نے حماس کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا آغاز کیا جو ایک غیرمعمولی قدم ہے کیوں کہ واشنگٹن 1997 میں حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے بعد سے اس سے کسی قسم کا رابطہ رکھنے سے انکار کرتا رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فلسطینی عسکریت پسندوں کی طرف سے قیدی بنائے گئے 251 لوگوں میں سے 58 اب بھی غزہ میں موجود ہیں جن میں پانچ امریکی شہری بھی شامل ہیں۔ چار امریکی قیدیوں کی موت کی تصدیق ہو چکی جب کہ ایڈن الیگزینڈر نامی ایک شہری کے زندہ ہونے کا امکان ہے۔
اس سے قبل امریکی صدر نے فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنے کا ایک منصوبہ پیش کیا جسے بڑے پیمانے پر مذمت کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد عرب رہنماؤں نے متبادل منصوبہ پیش کیا۔
اس منصوبے کے تحت غزہ کی تعمیر نو کے لیے ایک ٹرسٹ فنڈ کے ذریعے مالی امداد فراہم کی جائے گی اور رام اللہ میں قائم فلسطینی اتھارٹی دوبارہ اس علاقے کا انتظام سنبھالے گی۔
ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی، سٹیو وٹکوف نے واشنگٹن میں صحافیوں کو بتایا: ’ہمیں اس پر مزید بات چیت کی ضرورت ہے لیکن یہ نیک نیتی کے ساتھ ایک ابتدائی قدم ہے۔‘
وٹکوف اس ہفتے دوبارہ خطے کا دورہ کریں گے اور سعودی عرب جا کر یوکرین کی جنگ پر مذاکرات کریں گے۔
ادھر تل ابیب میں ہفتہ وار احتجاج کے دوران اسرائیلی قیدیوں کے اہل خانہ نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فائر بندی پر مکمل عملدرآمد کرے۔
ماتان زانگاؤکر نامی قیدی کی والدہ، ایناو زانگاؤکر، نے موم بتی اور پوسٹر اٹھائے ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’جنگ ایک ہفتے میں دوبارہ شروع ہو سکتی ہے۔ انہوں نے آپریشن کے لیے نام تک منتخب کر لیا ہے۔
جنگ یرغمالیوں کو گھر واپس نہیں لائے گی۔ یہ انہیں مار دے گی۔‘