پنجاب میں سکیورٹی ہائی الرٹ، سرچ آپریشنز اور تربیتی مشقیں جاری

آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کے مطابق گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران پنجاب میں 436 سرچ اینڈ سویپ آپریشنز اور آٹھ موک ایکسرسائزز کی گئی ہیں، جن کا مقصد دہشت گردوں، جرائم پیشہ عناصر اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد کی سرکوبی ہے۔

ڈی جی خان پولیس نے آٹھ مارچ 2025 کو سرحدی چوکی لکھانی پر دہشت گردوں کا گذشتہ 24 گھنٹوں میں دوسرا جبکہ رواں ہفتے میں تیسرا بڑا حملہ ناکام بنا دیا (فیس بک، پنجاب پولیس)

پنجاب پولیس کے مطابق ’موجودہ ملکی حالات کے پیش نظر‘ اتوار کو پنجاب بھر میں سکیورٹی کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے، قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی بھی ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لیے پوری طرح مستعد ہیں۔

پنجاب پولیس کے ایک ترجمان نے انڈیپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’رمضان المبارک میں سکیورٹی کے تناظر میں یہ ہائی الرٹ کیا گیا ہے۔‘

محکمہ تعلقات عامہ پنجاب پولیس کے مطابق صوبے بھر میں انٹیلی جنس بیسڈ سرچ اینڈ سویپ آپریشنز اور موک ایکسرسائزز کا سلسلہ جاری ہے تاکہ امن و امان کو یقینی بنایا جا سکے۔

پنجاب پولیس میں ہی بعض ذرائع نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سکیورٹی ہائی الرٹ، آپریشنز اور تربیتی مشقوں کی وجہ ملک کے کم از کم دو صوبوں میں امن و امان کی خراب صورت حال اور گذشتہ تقریباً ایک مہینے کے دوران ہونے والے شدت پسندی کے واقعات ہیں۔

خیبر پختونخوا کے ایک سے زیادہ اضلاع میں گذشتہ کئی ہفتوں سے عسکریت پسندوں کی جانب سے سکیورٹی فورسز پر حملے ہو رہے ہیں، جب کہ صوبہ بلوچستان سے بھی ایسی اطلاعات موصل ہوتی رہی ہیں۔

اتوار کی صبح ہی خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں شدت پسندوں نے ایک سکیورٹی چیک پوسٹ پر حملہ کر کے چار اہلکاروں کو جان سے مار دیا اور تین کو زخمی کر دیا۔

ضلع کرم، جہاں رواں سال جنوری سے صورت حال خراب ہے، کے علاوہ خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع سے بھی شدت پسندوں کی کارروائیوں کی اطلاعات موصول ہوتی رہی ہیں۔  

عسکریت پسندوں کا پولیس پوسٹ پر حملہ ناکام  

پنجاب کے جنوبی ضلع ڈیرہ غازی خان (ڈی جی خان) میں پولیس نے اتوار کو سرحدی چوکی لکھانی پر عسکریت پسندوں کی جانب سے ایک بڑا حملہ ناکام بنا دیا۔

ڈی جی خان پولیس کے ایک بیان کے مطابق: ’20 سے 25 دہشت گرد راکٹ لانچرز اور دیگر جدید اسلحے سے لیس ہو کر لکھانی چوکی پر حملہ آور ہوئے۔‘

بیان میں بتایا گیا کہ حملہ آوروں کو تھرمل ایمج کیمروں سے نشاندہی کرتے ہوئے جوابی کارروائی میں پسپا کیا گیا۔

عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد سرحدی علاقے میں پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا سرچ آپریشن شروع کیا گیا۔ 

پولیس کے مطابق ’سرحدی چوکی لکھانی پر دہشت گردوں کا گذشتہ 24 گھنٹوں میں دوسرا جبکہ رواں ہفتے میں تیسرا بڑا حملہ تھا۔‘  

انسپکٹر جنرل آف پولیس پنجاب عثمان انور نے اس موقعے پر ایک بیان میں کہا کہ ’پولیس کا ہر جوان سینہ تان کر دہشت گردوں کا مقابلہ کر رہا ہے۔ ہم دشمن کو ان کے مذموم عزائم میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ خیبر پختونخوا سرحد پر ہماری فورس ہر لمحہ چوکس ہے اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لیے ہر ممکن قدم اٹھایا جائے گا۔‘

مسیحی عبادت گاہوں کی سکیورٹی

پنجاب پولیس کے فیس بک پیج پر تصاویر پوسٹ کی گئی ہیں، جن میں پولیس اہلکاروں کو صوبے کی بعض مسیحی عبادت گاہوں پر تعینات دکھایا گیا ہے۔

ان تصاویر کے ساتھ تحریر ہے: ’صوبہ بھر میں مسیحی عبادت گاہوں کی سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے مستعد پولیس اہلکار ڈیوٹی پر موجود ہیں، جبکہ افسران خود فیلڈ میں جاکر سکیورٹی انتظامات کا جائزہ بھی لے رہے ہیں۔‘

 436 آپریشنز، آٹھ موک ایکسسائزز 

آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کے مطابق، گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران پنجاب بھر میں 436 سرچ اینڈ سویپ آپریشنز اور 08 موک ایکسرسائزز کی گئی ہیں، جن کا مقصد دہشت گردوں، جرائم پیشہ عناصر اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد کی سرکوبی ہے۔

پنجاب پولیس کی جانب سے کیے جانے والے ان سرچ آپریشنز کے دوران 38 اشتہاری مجرم اور 123 مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ان افراد پر سنگین جرائم میں ملوث ہونے کا شبہ ہے اور ان کے خلاف مزید تحقیقات جاری ہیں۔

اسلحہ، گولہ بارود اور منشیات برآمد

آپریشنز کے دوران مختلف مقامات سے بھاری مقدار میں اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد ہوا۔ پولیس نے ملزمان کے قبضے سے 02 کلاشنکوف، 12 بندوقیں، 20 ہینڈ گنز اور سینکڑوں کی تعداد میں گولیاں برآمد کر لی ہیں، جنہیں تخریبی کارروائیوں میں استعمال کیے جانے کا خدشہ تھا۔

پنجاب پولیس نے نہ صرف اسلحے کی برآمدگی کو یقینی بنایا بلکہ منشیات فروشوں کے خلاف بھی سخت کارروائی کی۔ سرچ اینڈ سویپ آپریشنز کے دوران 43 کلوگرام چرس، 02 کلو ہیروئن اور 560 گرام آئس برآمد کر لی گئی، جو کہ منشیات فروشوں کے نیٹ ورک کے خاتمے کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے۔

دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف مشقیں جاری

آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کے مطابق، دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی کے لیے پنجاب پولیس کی فرضی مشقیں (موک ایکسرسائزز) بھی جاری ہیں۔ ان مشقوں کا مقصد سکیورٹی اداروں کی استعدادِ کار کو مزید بہتر بنانا اور کسی بھی ہنگامی صورتحال میں بروقت کارروائی کو یقینی بنانا ہے۔

پنجاب پولیس کے فیس بک اکاؤنٹ پر کہا گیا ہے کہ یہ تمام کارروائی وزیر اعلی کے ’محفوظ پنجاب‘ پروگرام کے تحت کی جا رہی ہے۔

پنجاب بھر میں ہونے والی موک ایکسرسائزز میں پنجاب پولیس، کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (CTD)، اسپیشل برانچ، ایلیٹ فورس اور ریسکیو 1122 کی ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں۔ ان مشقوں کے ذریعے مختلف حساس مقامات پر ممکنہ دہشت گرد حملوں سے نمٹنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی اپنائی جا رہی ہے۔

آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے واضح کیا ہے کہ پنجاب پولیس ملک و قوم کی حفاظت کے لیے ہر ممکن اقدامات جاری رکھے گی۔ سرچ اینڈ سویپ آپریشنز، موک ایکسرسائزز اور دیگر انسدادی کارروائیاں مستقبل میں بھی جاری رہیں گی تاکہ صوبے میں امن و امان کی صورتحال مستحکم رہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پنجاب پولیس نے عوام سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ کسی بھی مشتبہ سرگرمی کی فوری اطلاع متعلقہ سکیورٹی اداروں کو دیں تاکہ امن و امان برقرار رکھا جا سکے۔

امریکی شہری پاکستان کا سفر کرنے پر نظر ثانی کریں: سٹیٹ ڈپارٹمنٹ

دوسری جانب امریکی حکومت نے پاکستان کے سفر کے حوالے سے اپنے شہریوں کے لیے ایڈوائزری جاری کی ہے۔

امریکی دفتر خارجہ کی ویب سائٹ کے مطابق جمعے کو جاری ہونے والی ایڈوائزری میں امریکی شہریوں کو ’دہشت گردی اور مسلح تنازعے کے ممکنہ خطرے‘ کے پیش نظر جنوبی ایشیائی ملک کے سفر پر نظرثانی کرنے کا مشورہ دیا گیا۔

امریکی شہریوں کے لیے تیسری سطح کی ایڈوائزری میں کہا گیا ہے کہ ’پرتشدد انتہا پسند گروہ پاکستان میں حملوں کی منصوبہ بندی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دہشت گردی کی وجہ سے صوبہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کا سفر نہ کریں جس میں سابقہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے بھی شامل ہیں۔

ایڈوائزری میں میں مزید کہا گیا کہ ’دہشت گردی اور مسلح تنازعے کے ممکنہ خطرے کے پیش نظر انڈیا پاکستان سرحد اور لائن آف کنٹرول کے قریبی علاقوں میں بھی سفر سے گریز کریں۔‘

امریکی ایڈوائزری کے مطابق: ’ پاکستان کا سکیورٹی ماحول غیر مستحکم ہے اور بعض اوقات بغیر کسی پیشگی اطلاع کے تبدیل ہو سکتا ہے۔

’بڑے شہروں، خاص طور پر اسلام آباد میں، سکیورٹی کے وسائل اور بنیادی ڈھانچہ زیادہ بہتر ہیں اور ان علاقوں میں سکیورٹی فورسز کسی ہنگامی صورت حال میں نسبتاً تیزی سے ردعمل دے سکتی ہیں جب کہ ملک کے دیگر علاقوں میں ایسا ممکن نہیں۔‘

ایڈوائزری میں مزید کہا گیا ہے کہ ’خطرات کے پیش نظر پاکستان میں کام کرنے والے امریکی سرکاری اہلکاروں کو اسلام آباد، لاہور اور کراچی کے علاوہ بیشتر علاقوں میں سفر کرنے کے لیے خصوصی اجازت لینا ضروری ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان