کینیڈا کے نو منتخب وزیر اعظم اور ملک کی لبرل پارٹی کے سربراہ مارک کارنی کو دو محاذوں پر جنگ کا سامنا ہے۔
جنوب میں انہیں ٹرمپ انتظامیہ کا سامنا ہے جس نے کینیڈا پر 25 فیصد کے تباہ کن محصولات عائد کرنے کی دھمکی دی اور یہاں تک کہ کینیڈا کو امریکہ کی 51ویں ریاست بنانے کی غیر حقیقی خواہش کا بھی کئی بار عوامی اظہار کیا۔
داخلی طور پر مارک کارنی کو فوری متوقع وفاقی انتخابات کا سامنا کرنا پڑے گا جہاں انہیں کینیڈین عوام کو یہ باور کرانا ہوگا کہ وہ اپنے پیش رو جسٹن ٹروڈو سے مختلف ہیں لیکن ملک کی قیادت کے لیے بہترین شخص اور بہترین پارٹی کے نمائندہ ہیں۔
جیسا کہ جسٹن ٹروڈو نے اپنے الوداعی خطاب کے دوران کہا کہ کینیڈا اب ایک ’قوم کے تعین کا لمحہ‘ دیکھ رہا ہے۔
ٹروڈو نے دارلحکومت اوٹاوا میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’جمہوریت کوئی عطا کردہ چیز نہیں، آزادی بھی ایسے ہی نصیب نہیں ہو جاتی۔ کینیڈا بھی ایسے ہی نہیں ملا۔ یہ سب کچھ حادثاتی طور پر نہیں ہوتا اور بغیر کوشش کے برقرار نہیں رہ سکتا۔‘
یہاں ہم مارک کارنی کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں جنہوں نے کبھی کوئی انتخابی عہدہ حاصل نہیں کیا لیکن اس کے باوجود وہ کئی سالوں تک عالمی معاملات پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔
مارک کارنی: ایک عالمی شخصیت
مارک کارنی 1965 میں شمال مغربہ خطے کے شہر فورٹ سمتھ میں پیدا ہوئے اور البرٹا کے شہر ایڈمونٹن میں پرورش پائی جہاں ان کے والدین بطور اساتذہ خدمات انجام دے رہے تھے۔
انہوں نے امریکہ میں سکالرشپ حاصل کی اور ہارورڈ اور آکسفورڈ یونیورسٹیوں سے معاشیات اور مالیات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔
اس کے بعد مارک کارنی نے بین الاقوامی بینک ’گولڈمین ساکس‘ کے لیے لندن، ٹوکیو اور نیویارک میں ایک اعلیٰ عہدے پر خدمات انجام دیں۔
وہ برطانوی ماہرِ معیشت ڈیانا فاکس کے شوہر ہیں اور ان کی چار بیٹیاں ہیں۔
کارنی بعد میں کینیڈا واپس آئے اور 2008 سے 2013 تک ملک کے مرکزی بینک کے سربراہ کے طور پر کام کیا جہاں ان کے فوری طور پر شرحِ سود میں کمی کے فیصلے کو کینیڈا کو عالمی مالیاتی بحران کے بدترین اثرات سے بچانے کا سہرا دیا جاتا ہے۔
انہوں نے عالمی سطح پر اپنی شناخت مزید مضبوط کی اور 2014 میں برطانیہ کے بینک آف انگلینڈ کے پہلے غیر برطانوی گورنر بنے جہاں انہیں بریگزٹ اور کووڈ 19 جیسی بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
2020 میں وہ اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی اقدامات اور مالیات کے نمائندے کے طور پر کام کرنے لگے۔
ٹرمپ اور پیئر پوئیلیور کے خلاف محاذ آرائی
جنوری میں جسٹن ٹروڈو نے تقریباً ایک دہائی اقتدار میں رہنے کے بعد استعفیٰ دینے کا اعلان کیا اور اسی ماہ مارک کارنی نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا۔ وہ خود کو ایک ماہر معیشت دان کے طور پر پیش کرتے ہوئے جو کینیڈا کی کمزور معیشت اور مہنگائی کے مسائل کو حل کر سکتا ہے۔
مارک کارنی نے ایڈمونٹن میں اپنے آبائی شہر میں خطاب کے دوران کہا: ’میں کینیڈا میں واحد لبرل نہیں ہوں جو سمجھتا ہے کہ وزیرِاعظم اور ان کی ٹیم نے معیشت پر توجہ دینا چھوڑ دی تھی۔ میں اپنی توجہ نہیں کھوؤں گا، ہماری ترقی بہت سست رہی ہے۔ لوگوں کی اجرتیں بہت کم ہیں۔ وفاقی حکومت خرچ زیادہ لیکن سرمایہ کاری کم کرتی ہے۔ متوسط طبقے پر ٹیکس بہت زیادہ ہیں۔‘
ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد یہ پیغام اور زیادہ واضح ہو گیا ہے کیونکہ امریکہ اور کینیڈا کے روایتی تعلقات میں عدم استحکام دیکھنے میں آیا ہے۔
اپنی تاریخی جیت کے بعد مارک کارنی نے وعدہ کیا کہ وہ کینیڈا پر کسی بھی امریکی محصولات کے بدلے مساوی جوابی اقدامات کریں گے کم از کم اس وقت تک ’جب تک کہ امریکی ہمیں عزت دینا نہ سیکھیں‘۔ انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ سخت مذاکرات کرنے کا بھی اعلان کیا۔
ان کے بقول: ’ہم نے یہ (تجارتی) جنگ شروع نہیں کی لیکن اگر امریکہ نے چیلنج دیا ہے، تو کینیڈا بھی مقابلے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ یہ مت سمجھیں کہ ہم ہار مان لیں گے، کینیڈا یہ جنگ جیتے گا۔‘
ان کا دوسرا مقابلہ کنزرویٹو پارٹی کے رہنما پیئر پوئیلیور سے ہوگا جن پر مارک کارنی نے الزام لگایا ہے کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کے پرستار ہیں۔
آگے کیا ہوگا؟
مارک کارنی اور پوئیلیور اکتوبر تک متوقع وفاقی انتخابات میں آمنے سامنے ہوں گے اگرچہ یہ انتخابات اس سے پہلے بھی کرائے جا سکتے ہیں۔
پوئیلیور نے بھی معیشت کو اپنی مہم کا محور بنایا ہے اور وہ کاربن ٹیکس میں کمی اور سرکاری اخراجات کو کم کرنے کا وعدہ کر رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مارک کارنی کے خلاف انتخابی مہم میں ان کی دولت اور مالیاتی دنیا سے تعلقات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
جب تک مارک کارنی انتخابی دوڑ میں شامل نہیں ہوئے تھے لبرلز، کنزرویٹوز کے مقابلے میں کمزور دکھائی دے رہے تھے۔
تاہم تازہ ترین تجزیے کانٹے کے مقابلے کی نشاندہی کرتے ہیں جس کا آغاز اس وقت ہوا جب جسٹن ٹروڈو نے عہدہ چھوڑنے کا اعلان کیا تھا۔
فروری کے ایک پول کے مطابق پوئیلیور کی کنزرویٹو پارٹی کو لبرلز پر نو فیصد کی برتری حاصل تھی تاہم ایک ممکنہ کارنی اور پوئیلیور کے درمیان مقابلے میں دونوں کے درمیان برابری نظر آ رہی ہے۔
رواں ماہ ایک پول میں ووٹرز نے پوئیلیور کو وہ امیدوار قرار دیا جو ’سب سے زیادہ ممکنہ طور پر ٹرمپ کے مطالبات مان لے گا لیکن انہیں وہ شخصیت بھی تصور کیا گیا جو امریکی کینیڈین تجارتی جنگ میں بہترین ڈیل حاصل کر سکتا ہے اور ملک کو امریکی انحصار سے آزاد کرنے کے لیے سب سے زیادہ مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔
© The Independent