نیویارک میں فلسطین حامی مظاہرین اور پولیس کے درمیان محمود خلیل کی حمایت میں کیے گئے مظاہرے کے دوران تصادم ہوا۔ محمود خلیل کولمبیا یونیورسٹی کے سابق طالب علم ہیں اور انہیں گذشتہ سال غزہ کے حق میں کیمپس پر احتجاج میں حصہ لینے کے باعث حراست میں لیا گیا تھا۔
30 سالہ خلیل کو امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (آئی سی ای) کے افسران نے ان کی حاملہ بیوی کے سامنے گرفتار کر لیا اور لوزیانا کے ایک حراستی مرکز میں منتقل کر دیا، حالانکہ وہ قانونی طور پر امریکہ میں مقیم تھے اور ایک امریکی شہری سے شادی کر رکھی ہے۔
وائٹ ہاؤس نے منگل کو کہا کہ اسے خلیل کا گرین کارڈ منسوخ کرنے کا اختیار حاصل ہے، حالانکہ ان پر کسی جرم کا الزام عائد نہیں کیا گیا۔ محکمہ داخلی سلامتی ( ڈی ایچ ایس) نے ان پر ’حماس سے منسلک سرگرمیوں میں ملوث‘ ہونے کا الزام لگایا ہے، جو ایک نامزد دہشت گرد تنظیم ہے۔
خلیل کی گرفتاری نے ٹرمپ انتظامیہ کے آزادی اظہار کے متعلق رویے پر سوالات اٹھا دیے ہیں، یہاں تک کہ کچھ دائیں بازو کے مبصرین نے بھی اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے خبردار کیا ہے کہ خلیل کی گرفتاری ’پہلی ہے، مزید گرفتاریاں ہوں گی۔‘
گذشتہ سال امریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں میں غزہ پر اسرائیلی حملوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے دیکھنے میں آئے۔ یہ مظاہرے سات اکتوبر 2023 کے حماس حملے کے بعد اسرائیل کی جوابی کارروائی کے نتیجے میں شروع ہوئے، حماس کے حملے میں 1,000 سے زائد افراد جان سے گئے اور تقریباً 250 افراد کو قیدی بنا لیا گیا تھا۔
اپریل 2024 میں امریکی پولیس نے احتجاج ختم کرانے کے لیے کارروائی کی، جس میں 100 سے زائد طلبہ کو گرفتار کیا گیا تھا۔
گذشتہ ہفتے، ٹرمپ انتظامیہ نے کولمبیا یونیورسٹی سے 40 کروڑ ڈالر کی گرانٹس اور معاہدے واپس لینے کا اعلان کیا، یہ کہتے ہوئے کہ یونیورسٹی کیمپس میں یہودی مخالف جذبات کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔
اس فیصلے کے بعد نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ ( این آئی ایچ) نے 25 کروڑ ڈالر کی فنڈنگ منسوخ کر دی، جس میں 400 سے زیادہ تحقیقی گرانٹس شامل تھیں۔
منگل کو نیویارک کے مین ہٹن میں خلیل کی حمایت میں ہونے والے ایک مارچ کے دوران تقریباً ایک درجن مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا۔ نیویارک پولیس کے اہلکاروں نے متعدد مظاہرین کو ہتھکڑیاں لگا کر سٹی ہال کے قریب سے گرفتار کیا، جن پر سڑک بلاک کرنے کا الزام تھا۔
اس کے علاوہ، یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، بارکلے اور نیو جرسی کے شہر نیویارک میں بھی مظاہرے دیکھنے میں آئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
منگل کو خلیل کی بیوی، جو آٹھ ماہ کی حاملہ ہیں اور جن کا نام عوامی طور پر ظاہر نہیں کیا گیا، نے اپنے شوہر کی رہائی کا مطالبہ کیا اور اس صورت حال کو ایک ’خوفناک خواب‘ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ ’میرے شوہر، محمود خلیل، میری طاقت ہیں، میرا گھر ہیں اور میری خوشی ہیں۔ میں آٹھ ماہ کی حاملہ ہوں اور مجھے یقین ہے کہ وہ ہمارے بچے کے لیے بہترین والد ہوں گے۔ ہم مل کر بچے کی تیاری کر رہے تھے، اور اب محمود کو مجھ سے بلاوجہ چھین لیا گیا ہے ... پچھلا ہفتہ ایک خوفناک خواب رہا ہے۔
’میں دنیا سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ان کی ظالمانہ اور خوفناک حراست کے خلاف آواز بلند کرتے رہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہر وہ شخص جو محمود کو جانتا ہے، جانتا ہے کہ وہ دباؤ کے لمحات میں بھی پُرسکون رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب وہ اس خوفناک صورت حال میں تھے، وہ پرسکون تھے۔
’چند ہی منٹوں میں، انہوں نے محمود کو ہتھکڑیاں لگا کر سڑک پر لے گئے اور بغیر نشانات والی گاڑی میں ڈال دیا۔ یہ سب کچھ میری آنکھوں کے سامنے ہوا، ایسا لگا جیسے میں کسی ایسی فلم کا منظر دیکھ رہی ہوں، جسے میں نے دیکھنے کا انتخاب نہیں کیا تھا ...
’امریکی امیگریشن نے میرے شوہر کو ہتھکڑیاں لگا کر اور بغیر نشانات والی گاڑی میں زبردستی ڈال کر مجھ سے میری روح چھین لی۔ اپنے پہلے بچے کی آمد کی تیاری میں نرسری سجانے اور اس کے کپڑے دھونے کے بجائے، میں اپنے اپارٹمنٹ میں بیٹھی یہ سوچ رہی ہوں کہ محمود کب کسی حراستی مرکز سے مجھے فون کر سکیں گے۔ میں امریکی حکومت سے مطالبہ کرتی ہوں کہ وہ انہیں رہا کرے، ان کا گرین کارڈ بحال کرے اور انہیں گھر واپس بھیجے۔‘
خلیل کے وکلا بدھ کو ان کی مجوزہ ملک بدری کو عدالت میں چیلنج کرنے والے ہیں۔
© The Independent