امریکی یونیورسٹی میں فلسطین حامی کیمپ پر اسرائیلی سپوٹرز کا دھاوا

لاس اینجلس کی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں اسرائیل کے حامیوں نے مظاہرین کے کیمپ پر دھاوا بول دیا جب کہ پولیس نے نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی میں درجنوں فلسطینی حامی مظاہرین کو گرفتار کر لیا۔

لاس اینجلس میں کیلیفورنیا یونیورسٹی کے کیمپس میں پولیس افسران کو فلسطینی حامی احتجاجی کیمپ کے باہر کھڑا دیکھا جا سکتا ہے (روئٹرز)

امریکہ کے شہر لاس اینجلس کی ’یونیورسٹی آف کیلیفورنیا‘ (یو سی ایل اے) میں بدھ کو اسرائیل کے حامیوں کی جانب سے غزہ میں فلسطینیوں کی مبینہ نسل کشی کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین کے کیمپ پر دھاوا بولنے کے بعد پولیس فورس تعینات کر دی گئی۔

عینی شاہدین کی ویڈیو فوٹیجز، جس کی برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے بھی تصدیق کی ہے، میں اسرائیلی حامیوں کو احتجاجی کیمپوں کی حفاظت کے لیے کھڑی کی گئی عارضی رکاوٹیں پر لاٹھیاں اور ڈنڈے چلاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

سات اکتوبر کے بعد غزہ کی پٹی پر اسرائیلی حملے کے بعد 35 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کی اموات کے بعد امریکی طلبہ کی احتجاجی لہر امریکہ بھر میں پھیل گئی ہے۔

رواں سال نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات سے قبل امریکہ میں طلبہ کے احتجاج نے سیاسی رنگ بھی اختیار کیا ہے جہاں رپبلکنز نے کچھ یونیورسٹیوں کے منتظمین پر یہ الزام لگایا ہے کہ وہ اینٹی سمیٹک یا یہود مخالف بیانات اور یہودیوں کو ہراساں کیے جانے پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔

منگل کو یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی انتظامیہ نے مظاہرین کو مطلع کیا کہ یہ کیمپ غیر قانونی ہے اور یونیورسٹی کی پالیسی کی خلاف ورزی ہے۔ یونیورسٹی کے چانسلر جین بروک نے کہا کہ اس میں ’ہمارے کیمپس کے باہر سے لوگ‘ شامل ہیں حالانکہ انہوں نے ’باہر کے لوگوں‘ کی موجودگی کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔

بدھ کی صبح کی فوٹیج میں اسرائیل حامی مظاہرین، جن میں سے بہت سے طالب علموں کی عمر سے بڑے اور نقاب پوش افراد شامل تھے، کو یونیورسٹی کے احاطے میں چیزیں پھینکتے اور کیمپ کے تحفظ کے لیے کھڑی کی گئی لکڑی اور سٹیل کی رکاوٹوں کو توڑنے یا کھینچنے کی کوشش کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔

ان لوگوں میں سے کچھ کو یہودیوں کی حمایت پر نعرے لگاتے بھی سنا گیا۔

یو سی ایل اے کے ایک محقق طالب علم کائیہ شاہ نے روئٹرز کو بتایا کہ ’وہ (اسرائیلی حامی) یہاں آئے اور ہم پر تشدد کیا۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ کبھی اس حد تک گر جائیں گے اور یہ قدم اٹھائیں گے، احتجاج کا مقابلہ جوابی مظاہرے سے ہوتا ہے لیکن وہ ہمیں تشدد سے نقصان پہنچا رہے ہیں، ہمیں تکلیف پہنچا رہے ہیں، جب کہ ہم ان کے خلاف کچھ نہیں کر رہے۔‘

بعد میں دونوں جانب سے مظاہرین نے ایک دوسرے پر پیپر سپرے کیا اور لڑائی شروع ہوگئی۔

ایک اور فلسطین حامی طالب علم صوفیہ نے کہا: ’انہوں نے ہم لوگوں پر (سپرے) کیا، ہمیں ڈنڈوں اور لاٹھیوں سے مارا، جو کچھ وہ ہمارے اوپر پھینک سکتے تھے، پھینک رہے تھے اور اس قانون نافذ کرنے والے اداروں میں سے کوئی بھی یہاں نہیں تھا۔ ہمیں یہاں مجرموں کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لاس اینجلس پولیس ڈیپارٹمنٹ نے کہا کہ اس نے یو سی ایل اے کی طرف سے کیمپس میں احتجاجی کیمپ میں تشدد کی متعدد کارروائیوں کی وجہ سے امن بحال کرنے اور عوامی تحفظ کو برقرار رکھنے کی درخواست کا جواب دیا ہے۔

بعد میں نشر ہونے والی فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ پولیس نے صبح پانچ بجے کیمپ کے سامنے ایک لوہے کی رکاوٹ کھڑی کر دی تھی اور علاقہ خاموش تھا۔

لاس اینجلس کی کونسل وومن کیٹی یاروسلاوسکی نے ایکس پر پوسٹ میں لکھا: ’ہر ایک کو آزادی اظہار اور احتجاج کا حق ہے لیکن یو سی ایل اے کے کیمپس کی صورت حال قابو سے باہر ہے اور اب محفوظ نہیں ہے۔‘

دوسری جانب نیویارک میں پولیس نے کولمبیا یونیورسٹی میں چھپے کئی مظاہرین کو گرفتار کر لیا۔

پولیس افسران منگل کی شب نے ہیملٹن ہال پر چڑھائی کر دی جہاں مظاہرین نے صبح کھڑکی سے ہوتے ہوئے دوسری منزل کی قبضہ کر لیا تھا۔ پولیس کے ایک ترجمان نے بتایا کہ تین گھنٹوں کے اندر انہوں نے مظاہرین کو وہاں سے ہٹا دیا اور درجنوں کو گرفتار کر لیا۔

کولمبیا یونیورسٹی کے صدر منوشے شفیق نے پولیس کو کم از کم 17 مئی تک کیمپس میں رہنے کی درخواست کی ہے تاکہ نظم و ضبط برقرار رکھا جا سکے اور اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ یہاں احتجاجی کیمپس دوبارہ قائم نہ ہوں۔

پولیس کارروائی کے وقت ہال کے باہر کھڑے طلبہ ’شرم کرو، فلسطین کو آزادی دو اور طلبہ کو جانے دو‘ جیسے نعرے لگائے۔

پولیس کو درجنوں زیر حراست طلبہ کو ایک بس میں لادتے ہوئے دیکھا گیا جن کے ہاتھ ان کی پیٹھ کے پیچھے زپ ٹائی سے بندھے ہوئے تھے، یہ منظر پولیس کی گاڑیوں کی چمکتی ہوئی سرخ اور نیلی روشنیوں سے روشن تھا۔

کولمبیا یونیورسٹی کی تنظیم ’اپارتھائیڈ ڈائیوسٹ‘ سے وابستہ سویڈا پولاٹ نے کہا کہ انہیں کوئی خطرہ نہیں ہے اور انہوں نے پولیس کو پیچھے ہٹنے پر زور دیا۔

کولمبیا یونیورسٹی کے صدر منوشے شفیق نے الزام لگایا کہ ہیملٹن ہال پر قبضہ کرنے والوں نے یونیورسٹی کی املاک میں توڑ پھوڑ کی ہے اور وہ اپنی حد سے تجاوز کر رہے ہیں۔ یونیورسٹی نے اس سے قبل احتجاج میں شامل طلبہ کو خبردار کیا تھا۔

پولیس کے کولمبیا یونیورسٹی میں داخل ہونے سے چند گھنٹے قبل نیو یارک سٹی کے میئر ایرک ایڈمز اور پولیس حکام نے کہا کہ ہیملٹن ہال پر قبضے کو کولمبیا یونیورسٹی سے غیر وابستہ ’بیرونی مشتعل افراد‘ نے اکسایا تھا۔

تاہم ایڈمز نے اس بارے میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔ طلبہ کے احتجاج کے ایک رہنما محمود خلیل، نے اس دعوے سے اختلاف کیا۔

دوسری جانب نیو اورلینز میں ٹولین یونیورسٹی، ایریزونا یونیورسٹی اور ہارلیم کے سٹی کالج آف نیویارک میں راتوں رات فلسطینی حامی کیمپوں کو خالی کرانے اور گرفتاریوں کے لیے پولیس کو بھی بلایا گیا۔

نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق سٹی کالج میں درجنوں افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ