ویسے تو پاکستان نے حالیہ چند سالوں سے افغان پناہ گزینوں کی واپسی کا عمل جاری کر رکھا ہوا ہے، لیکن لاکھوں غیر قانونی طور پر مقیم افغانوں کے بعد اب قانونی طور پر رہنے والوں کو بھی 31 مارچ تک چلے جانے کا کہا گیا ہے۔ کیا پاکستان اس عید کو یہاں مقیم افغانوں کے لیے کِرکرا کرنے میں واقعی سنجیدہ ہے؟
پاکستان کی ریاستوں اور فرنٹیئر ریجنز کی وزارت یا سیفران نے پچھلے سال 22 جولائی کو پاکستان میں مقیم پروف آف رجسٹریشن یا پی او آر کارڈ کے حامل افغان پناہ گزینوں کے قیام کی مدت میں ایک سال کی توسیع کر دی تھی۔ اس اعلامیے کے مطابق قومی ڈیٹا بیس اتھارٹی (نادرا) کے پاس رجسٹرڈ افغانوں کے ان کارڈوں میں 30 جون 2025 تک توسیع کر دی گئی تھی۔
تو پھر اچانک ایسا کیا ہوا کہ حکومت نے تمام غیرقانونی افغانوں کے ساتھ ساتھ اب پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) اور افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز (اے سی سی) کو بھی31 مارچ 2025 تک پاکستان چھوڑنے کا حکم دے دیا ہے؟
اسلام آباد کا کہنا ہے کہ اپریل کی پہلی تاریخ سے ان افغانوں کے خلاف کارروائی شروع کر دی جائے گی۔
ایک اندازے کے مطابق اس سے 23 لاکھ مزید افغان متاثر ہوں گے۔ اے سی سی کارڈ ہولڈر کی تعداد 9 لاکھ جبکہ پی او آر کی تعداد 14 لاکھ بتائی جاتی ہے۔
پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) کارڈ افغان پناہ گزینوں کے لیے ایک شناختی دستاویز ہے، جو انہیں قانونی طور پر پاکستان میں رہنے کی اجازت دیتی ہے۔ یہ کارڈ رکھنے والوں کو 1946 کے فارنرز ایکٹ یا دیگر قوانین کے تحت گرفتار نہیں کیا جاسکتا ہے جبکہ افغان سٹیزن کارڈ یا اے سی سی پاکستان میں قانونی تارکین وطن کے طور پر تسلیم شدہ افغانوں کو جاری کیا جاتا ہے۔
افغانوں کی واپسی کا عمل اکتوبر 2023 سے اس وقت کی عبوری پاکستانی حکومت کے حکم پر شروع ہوا تھا۔ اس کی جو واحد بڑی وجہ سمجھ آتی ہے وہ تو حکومت پاکستان کا پرانا موقف ہے کہ ملک میں سکیورٹی خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے کیا جا رہا ہے۔ اس شکایت کی بظاہر سنگینی میں اضافہ افغان طالبان کے 2021 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان کے اندر پرتشدد حملوں میں تیزی آنے سے ہوا ہے۔
ویسے تو ہر ملک کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی سرحد کے اندر پناہ گزینوں کی نقل و حرکت محدود کرسکتا ہے لیکن عالمی قوانین ان کو ان کی مرضی کے بغیر جبری طور پر انخلا کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔
پاکستان سمیت کسی ملک نے اب تک طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے یعنی پالیسی اعتبار سے وہ سمجھتی ہے کہ افغانستان میں ابھی مستحکم نظام قائم نہیں ہوا ہے۔ وہاں امن عامہ میں قدرے بہتری آئی ہے لیکن پناہ گزینوں کی واپسی کے بہت سے لوازمات میں سے ایک معاشی حالات میں بہتری بھی ضروری ہوتی ہے۔
عام افغانوں کے لیے ان کے ملک میں معاشی چیلنج بدستور موجود ہیں اور بڑھے ہیں۔
پناہ گزینوں کی دیکھ بحال کرنے والی عالمی تنظیمیں یو این ایچ سی آر اور آئی او ایم اسی لیے حکومت پاکستان سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ انخلا کا کوئی بھی منصوبہ حقوق انسانی کے عالمی معیار کے مطابق ہی ہونا چاہیے۔ وہ اس انخلا کے منصوبے کے نظام الوقات اور طریقہ کار کا بھی مطالبہ کر رہی ہیں جو اسلام آباد کی جانب سے ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے۔
اسلام آباد میں ایک اعلیٰ ترین سفارت کار سے جب میری بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اب ایک باضابطہ ملک کی طرح رہنا چاہتا ہے، لہٰذا یہاں جس نے بھی رہنا ہو گا قانونی طریقے سے رہے گا۔
قانونی طور پر مقیم افغانوں کے لیے واقعی ایک ماہ کے نوٹس پر اپنا کاروبار یا تعلیم چھوڑ کر چلے جانا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام آباد اور راولپنڈی میں بڑی تعداد میں افغان تیسرے ملک یعنی امریکہ یا یورپ جانے کے کئی سالوں سے منتظر ہیں۔ انہیں ان حکومتوں نے افغانستان چھوڑنے اور کسی پرامن مقام پر منتقل ہونے کا کہا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا تیسرے ممالک کو انخلا جاری ہے لیکن انتہائی سست روی کا شکار ہے۔ پھر بعض افغانوں نے جو باقاعدہ ویزے پر پاکستان میں موجود ہیں شکایت کی ہے کہ حکومت پاکستان ماضی کے برعکس ان کے ویزوں اب چھ ماہ کی توسیع کی بجائے ایک یا دو ماہ کی توسیع کر رہی ہے۔
پاکستانی ویزوں کے حصول میں افغانوں کو کرپشن اور مشکلات کا جو سامنا کرنا پڑتا ہے وہ کوئی نئی بات نہیں۔ کمپوٹرائزڈ ہونے کے باوجود اس کے اجرا میں شفافیت کا فقدان دیکھا گیا ہے۔ اسے بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
یو این ایچ سی آر کی جانب سے 2021 سے ایک نان ریٹرن ایڈوائزری نافذ العمل ہے جس میں ممالک کو افغان شہریوں کی جبری واپسی سے منع کیا گیا ہے یعنی انہیں زبردستی نہیں بھیجا جا سکتا۔
لیکن یکم جنوری کے بعد سے اسلام آباد اور راولپنڈی میں افغان شہریوں کی گرفتاریوں میں اضافہ افغانوں کے لیے کافی پریشانی کا سبب بنا ہے۔ رواں سال اب تک صرف ان دو شہروں سے آٹھ سو سے زائد افغانوں کو ملک بدر کیا جا چکا ہے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
یو این ایچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق ان کے علاوہ 2023 سے واپسی کی مہم کے آغاز سے اب تک ساڑھے آٹھ لاکھ افغان پہلے ہی وطن واپس لوٹ چکے ہیں۔
حکومت پاکستان کے موقف سے برعکس عام تاثر یہی ہے کہ یہاں مقیم افغانوں کی اکثریت پاکستانی قانون کا مکمل احترام کرتی ہے۔ وہ قانونی طور پر اگر ویزے کا عمل آسان بنایا جائے تو یہیں رہنا چاہتے ہیں۔ ان کے قانونی قیام سے پاکستان کو معاشی طور پر کئی فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نے افغانوں کو بینک کھاتہ سمیت کئی مراعات دینے کا اعلان کیا تھا لیکن اس پر عمل آج تک نہیں ہوسکا ہے۔
حقوق انسانی کی تنظیمیں بھی افغان شہریوں کے لیے فکرمند ہیں جنہیں خدشہ ہے کہ جبری طور پر واپس بھیجے گئے افراد میں نسلی اور مذہبی اقلیتیں، خواتین، صحافی، انسانی حقوق کے کارکن اور فنکار شامل ہوں گے جنہیں افغانستان میں شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اطلاعات کے مطابق افغانوں کی آمد پر پابندی کے اشارے دیئے ہیں۔ ان میں وہ بھی شامل ہیں جنہیں امریکہ پہلے ہی منتقل کرنے کی تصدیق کر چکا ہے۔ ان افغانوں کے لیے وہاں بھی حالات اچھے نہیں اگرچہ حکومت پاکستان نے ان ممالک سے انخلا کے اس عمل کو تیز کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ افغان اپنے رہنماؤں کی غلطیوں کا خمیازہ کافی طویل عرصے سے بھر رہے ہیں، اب اسلام آباد اور کابل میں جاری کشیدگی کا ایندھن انہیں بنانے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔ انہیں دباؤ کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے، وہ جیتے جاگتے انسان ہیں۔
ان افغانوں کے بارے میں سرکاری سطح پر تسلسل کے ساتھ منفی معلومماتی مہمات چلائی گئی ہیں جن کی وجہ سے کئی پاکستانی بھی انہیں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔
خیال ہے کہ عالمی دباؤ اور صلاحیتی کمزوری کی وجہ سے پاکستان کی جانب سے شاید 31 مارچ کی تاریخ میں توسیع تو کر دی جائے گی، لیکن شاید اس فیصلے کو دائمی طور پر موخر کرنے کا امکان نہیں۔ یہ خطرے کی تلوار ان بدنصیب افغانوں کے سروں پر لٹکتی رہے گی۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔