’آپ کو بھابھی کیسی لگی، کیوٹ لگی تو کمنٹ کرکے ضرور بتائیں۔‘ میں خلافِ طبیعت ایک تقریب میں موبائل کی سکرین پر بلاوجہ ہی سکرول کر رہی تھی کہ فیس بک کی مختصر دورانیے کی ایک ویڈیو اونچی آواز میں چل پڑی اور وہ کمرہ، جہاں ابھی ابھی افطار کرکے لوگ بیٹھے تھے، اس جملے سے گونج اٹھا۔
میں نے سٹپٹاتے ہوئے لاحول پڑھا اور جیسے تیسے موبائل کی آواز دھیمی کرکے اور فیملی وی لاگرز کے اس فتنے پر لعنت بھیج کر موبائل پرس میں رکھ لیا۔ وہ سوشل میڈیا مواد جسے دوست احباب کے سامنے دیکھتے ہوئے بھی خجالت محسوس ہو، اس مواد کو بنانے والے کہا کرتے ہیں ’فیملی وی لاگنگ۔‘
یوں تو سب کو ہی معلوم ہو گا، مگر جنہیں نہیں معلوم وہ مختصراً سمجھ لیں کہ فیملی وی لاگ کیا شے ہے۔ یہ جدید دور میں لائف سٹائل ویڈیوز کی ایک قسم ہے جس میں لائف سٹائل چینل بنانے والا فرد اپنی روزمرہ زندگی کو دنیا کے سامنے لاتا ہے، یوں ویڈیوز دیکھنے والے اس فرد کی زندگی کا ایک بالواسطہ حصہ بن جاتے ہیں۔
ان ویڈیوز میں وی لاگرز اپنی صبح سے شام کے درمیان ہونے والی مصروفیات دکھاتے ہیں۔ وہ کیا کھاتے پیتے ہیں، کیا پہنتے ہیں، کیسے رہتے ہیں۔ اگر نوکری کرتے یا بزنس کرتے ہیں تو اس کی کیا مصروفیت ہے، وغیرہ وغیرہ۔
دنیا بھر میں لائف سٹائل ویڈیوز بنائی جاتی ہیں۔ مغربی دنیا میں لائف سٹائل ویڈیوز میں ایک غالب اکثریت ایسے انفلوئنسرز کی ہے جو سکن کیئر، بڑے شہر کی زندگی، گاؤں کی زندگی، فیشن ٹرینڈز، جسمانی صحت، ذہنی صحت اور بچوں کی پرورش جیسے موضوعات کو بنیاد بنا کر وی لاگنگ کرتے ہیں۔ ان ویڈیوز میں اگرچہ فیملی بھی دکھائی جاتی ہے، لیکن ایک مخصوص موضوع کو ضرور مدنظر رکھا جاتا ہے۔ پھر ان ویڈیوز میں پروڈکٹ پلیسمنٹ بھی ہوتی ہے، یعنی یہ وی لاگرز اپنی ویڈیوز میں جن مصنوعات کو دکھاتے ہیں، ان کی فروخت پر انہیں کمیشن ملتا ہے۔
دنیا کے مالدار افراد اپنی روزمرہ زندگی نہیں دکھاتے، البتہ بڑی میڈیا پروڈکشن کمپنیاں ان کو پیسے دے کر ان کا لائف سٹائل ریکارڈ کرتی ہیں۔ مثلاً دبئی بلنگ نامی ایک شو نیٹ فلکس پر بڑا مقبول ہوا، جو دبئی کے امیر افراد کی فیملی اور لائف سٹائل کو قریب سے دکھانے کی وجہ سے مشہور ہوا۔ ہمارے پاکستانی صحافی سہیل وڑائچ ایک دن جیو کے ساتھ نامی شو بھی عرصے سے کر رہے ہیں۔
یہ انسانی دلچسپی کے بہت سے موضوعات میں سے ایک موضوع ہے کہ یہ اہم لوگ—سیلیبرٹی، سیاست دان یا رئیس و نواب—کھاتے کیا ہیں، سوتے کہاں ہیں، ان کے صوفے کیسے ہوتے ہیں، ان کا کچن کیسا نظر آتا ہے۔ رئیس و نواب ہی کیا، اب تو برطانیہ کے شاہی خاندان کے شہزادے ہیری اور ان کی اہلیہ میگن مارکل بھی اپنی زندگی کیمرے کے ذریعے دنیا کے سامنے رکھ رہے ہیں۔
فیملی اور لائف سٹائل وی لاگنگ کرنے کو ایک دنیا کر رہی ہے، لیکن ہمارے پاکستانی وی لاگرز نے وکھرا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ فیملی وی لاگ کا یہ سلسلہ صبح ان کے بیڈروم سے شروع ہوتا ہے، پھر اپنی شہزادی کے نخرے اٹھانے، حاملہ بہن کو قے کے بعد سکنجبین پلانے، بازار سے پاپڑ لا کر تین بیگمات کے درمیان برابر تقسیم کرنے، دوستوں کے ساتھ ہیوی بائیک چلانے سے ہوتا ہوا ایک بار پھر گھر میں بستر پر سجی گلاب کی پتیاں دکھانے تک چلتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اداکار فہد مصطفیٰ نے صد فیصد درست کہا کہ فیملی وی لاگرز کی کوئی حد نہیں، یہ اپنے گھر والے بطور سوشل میڈیا کانٹینٹ بیچ رہے ہیں۔ جواب میں فیملی وی لاگرز اپنی بساط اور توقع کے عین مطابق نہایت بھونڈے انداز میں اپنے پھکڑ پن کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔
ان فیملی وی لاگز کا اس کے سوا کوئی موضوع یا کوئی مقصد نہیں نظر آتا کہ انہیں یوٹیوب، فیس بک یا ٹک ٹاک سے ہر ماہ لاکھوں، بلکہ کروڑوں روپے کی مد میں آمدن ہو جائے۔ ان کے مواد میں کوئی سینس ہے نہ سینسر، بچے، بڑے، بوڑھے کی کوئی تمیز نہیں، بلکہ ان کے پاس سرے سے مواد ہی نہیں۔ ویوز کے لیے ہر طرح کا مواد لگے گا، ڈالر کے لیے ابا میاں کے مرتے دم کا وی لاگ بھی چلے گا، اور مذہبی تڑکا لگ جائے تو پھر تو گارنٹی کے ساتھ چلے گا۔
بعض فیملی وی لاگ ایسے بھی نظر سے گزرے ہیں جہاں زبردستی مسکراتی خاتون واضح طور پر اپنے یوٹیوبر خاوند کے سامنے بے بس نظر آ رہی ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر شادی شدہ فیملی وی لاگر کی اہلیہ بھی ہر وقت کیمرے کے سامنے شوپیس بننے کے لیے اپنی خوشی سے تیار ہو۔ یہی معاملہ وی لاگز میں زبردستی گھسیٹے گئے شوہروں کا بھی ہے۔
بچوں کے بارے میں یوں بھی پاکستان میں سوچتا کون ہے، ورنہ سوال تو یہ بھی ہے کہ ان فیملی وی لاگرز نے اپنے بچوں کو وی لاگز کی تربیت دی رکھی ہے۔ یہ مسلسل چلتے ڈرامے میں کیمرے کے سامنے کسی کردار کی طرح جینے جیسا ہے۔ ان فیملی وی لاگز میں اصل زندگی کیا ہے اور ڈراما کیا ہے، سب گڈمڈ ہو گیا ہے۔ اب ان بچوں کے بارے میں سوچیں کہ جب یہ بڑے ہوں گے تو کیا واقعی بڑے ہوں گے یا پھر ان کی عمر اور شعور بھی کیمرے کے لینس کی طرح چھوٹے ہی رہ جائیں گے؟
فیملی وی لاگرز کے لیے سوال اور اعتراضات تو ہزار ہیں، اصل مدعا یہ ہے کہ سوشل میڈیا کی نان سٹاپ ہائی سپیڈ ٹرین کا بظاہر کوئی سٹاپ نظر نہیں آ رہا۔ یہ خود سے، اپنے تجربات سے سدھر جائیں، اپنا مواد بہتر بنائیں تو بات بنے، ورنہ سوشل میڈیا پر سٹیٹ سنسر شپ دیوانے کا خواب ہے۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔