بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کی رہنما سمی دین بلوچ نے کہا ہے کہ ان کی نسلی حقوق کی تنظیم ان لوگوں کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے لیے تیار ہے، جو بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور دیگر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ’خاتمے کی طاقت رکھتے ہیں۔‘
ان کا اشارہ فوج کی طرف تھا، جو طویل عرصے سے صوبے میں سکیورٹی اور سیاست پر اثر انداز رہی ہے۔ پاکستانی فوج افغانستان اور ایران سے متصل اس پہاڑی اور غریب خطے میں بڑے پیمانے پر موجود ہے، جہاں علیحدگی پسند گروہ کئی دہائیوں سے ایک علیحدہ وطن کے لیے لڑ رہے ہیں تاکہ وسائل سے مالا مال صوبے سے زیادہ فوائد حاصل کیے جا سکیں۔
فوج طویل عرصے سے ان گروہوں کے خلاف انٹیلیجنس پر مبنی آپریشنز کر رہی ہے، جنہوں نے حالیہ مہینوں میں فوج اور چین کے شہریوں پر حملے تیز کر دیے ہیں۔ چین یہاں گوادر پورٹ سمیت اہم منصوبے بنا رہا ہے۔
بلوچستان میں کئی دہائیوں سے جبری گمشدگیاں بھی ہو رہی ہیں۔ خاندانوں کا کہنا ہے کہ مردوں کو سکیورٹی فورسز اٹھا لیتی ہیں، وہ سالوں تک غائب رہتے ہیں، اور بعض اوقات مردہ پائے جاتے ہیں، بغیر کسی سرکاری وضاحت کے۔ حکومت اور سکیورٹی حکام اس میں ملوث ہونے سے انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے صوبے کی بہتری کے لیے کام کر رہے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ جیسے بین الاقوامی انسانی حقوق کے ادارے اور اپوزیشن جماعتیں بھی طویل عرصے سے بلوچستان میں طلبہ، کارکنوں، صحافیوں اور انسانی حقوق کے محافظوں کی جبری گمشدگیوں کی نشاندہی کر رہی ہیں۔
ادھر پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما بیرسٹر عقیل ملک نے انڈپینڈنٹ اردو کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ’اگر ان کی تحریک واقعی بلوچستان کے معاملے پر ہے اور اس میں کوئی اندرونی محرکات نہیں ہیں تو بالکل حکومت بات کرے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت کو تمام پاکستانیوں کے ساتھ بشمول وہ جو بلوچستان سے ہیں، کے پی سے ہیں، سندھ یا پنجاب سے ہیں، اگر کوئی ایسے گروہ ہیں تو ان سے ہم رابطہ کریں گے اور کر بھی رہے ہیں۔‘
فوج کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے لاپتہ افراد میں سے کئی کا تعلق علیحدگی پسند گروہوں سے ہے۔ فوجی ترجمان مختلف مواقع پر بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) جیسے حقوق کے لیے کام کرنے والے گروہوں پر ’دہشت گردوں کے سہولت کار‘ ہونے کا الزام بھی لگا چکے ہیں۔
عرب نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کی رہنما سمی دین بلوچ نے کہا: ’جو لوگ ہمارے مسائل کو حل کرنے کا اختیار رکھتے ہیں، جن کی آواز سنی جاتی ہے، وہ کوئی بھی شخص، کوئی بھی ادارہ یا نمائندہ ہو سکتا ہے ۔۔۔ ہم کہتے ہیں کہ وہ بااختیار شخص سامنے آئے۔‘
2020 میں قائم ہونے والی بی وائی سی نے بلوچستان میں کئی بڑے احتجاج منظم کیے ہیں اور اسلام آباد میں دھرنے دیے ہیں، خاص طور پر جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف، جن کا الزام وہ فوج اور دیگر سکیورٹی فورسز پر عائد کرتے ہیں۔ حکام ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔
سمی دین بلوچ نے مزید کہا ’ہم نے حکومت کے اہلکاروں سے ایک نہیں بلکہ کئی بار رجوع کیا، ہم ان کے پاس اپنے دکھ اور تکلیف لے کر گئے، لیکن ہر بار انہوں نے یا تو جھوٹے وعدے کیے یا کہا، ’ہم اس معاملے میں بے بس ہیں۔
’لہٰذا، جو لوگ براہ راست اس مسئلے میں ملوث ہیں، جو اس مسئلے کو حل کر سکتے ہیں، جن کے پاس اختیار ہے، انہیں آنا چاہیے اور ہم سے بات کرنی چاہیے۔ ہم کسی سے بھی بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘
’ہماری سننے کوئی نہیں آتا‘
بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز بلند کرنے والی سرکردہ شخصیت، سمی دین بلوچ نے کہا کہ انہوں نے نو سال کی عمر میں ایکٹیوازم کا راستہ اپنایا جب ان کے والد ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو 2009 میں مبینہ طور پر سکیورٹی اہلکاروں نے اغوا کر لیا۔
جب وہ اپنے والد کی رہائی کا مطالبہ کرنے سڑکوں پر نکلیں، تو انہیں جلد ہی احساس ہوا کہ بلوچستان میں بہت سے لوگوں کو ایسی ہی شکایات ہیں۔
انہوں نے کہا: ’ایسی ہزاروں مائیں، بہنیں اور بیٹیاں تھیں جن کے بھائی، باپ اور بیٹے غائب کر دیے گئے تھے، تو کیوں نہ اس لڑائی کو اجتماعی جدوجہد میں تبدیل کر کے آگے بڑھایا جائے۔
’اسی دن میں نے فیصلہ کیا کہ میں جبری گمشدگیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف اجتماعی جدوجہد کا حصہ بنوں گی۔‘
بی وائی سی اب بلوچستان تک محدود نہیں بلکہ سندھ، خیبر پختونخوا اور پنجاب میں جبری گمشدگیوں پر کام کرنے والی انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ بھی کام کر رہی ہے۔
سمی دین بلوچ نے کہا کہ زندگی کے حالات نے انہیں یہ مشکل راستہ اختیار کرنے پر مجبور کیا، انہوں نے اس زندگی کو بیان کیا جب وہ بچپن میں بھوک ہڑتالی کیمپوں یا سرکاری دفاتر اور پریس کلبوں کے باہر اپنے والد کی تصویر اٹھائے کھڑی تھیں۔
سمی بلوچ نے کہا کہ 2013 ایک سخت آزمائش کا لمحہ آیا جب وہ کوئٹہ سے کراچی اور پھر اسلام آباد تک ایک 2200 کلومیٹر طویل ’لانگ مارچ‘ کا حصہ بنیں۔
’یہ نہ صرف ذہنی طور پر تھکا دینے والا تھا بلکہ جسمانی طور پر بھی انتہائی تکلیف دہ تھا۔ ہمارے پاؤں میں چھالے پڑ گئے، ہمارے ناخن اتر گئے اور ہم روزانہ آٹھ سے 10 گھنٹے چلتے رہے، ایک دن میں 30 کلومیٹر سے زیادہ کا فاصلہ طے کیا۔
’ہم نے یہ احتجاج جان بوجھ کر خود کو اذیت میں ڈالنے کے لیے شروع کیا، تاکہ ریاستی ادارے ہمارے درد کو دیکھیں، ہماری چیخیں سنیں۔ ہم نے خود کو اس کرب میں ڈال کر انہیں ہمارا درد محسوس کروانے کی کوشش کی۔
’لیکن تین ماہ اور 18 دن بعد جب ہم بالآخر اسلام آباد پہنچے، تو کسی نے ہماری بات نہیں سنی۔ کوئی بھی ہمیں سننے نہیں آیا۔‘
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں مختلف حکومتیں ’دہشت گردوں‘ سے مذاکرات کے لیے تیار رہی ہیں، لیکن بلوچستان کے محروم عوام سے، جو بنیادی انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، بات کرنے کے لیے تیار نہیں۔
انہوں نے کہا، ’جو لوگ ملک کے آئین اور قوانین کو تسلیم نہیں کرتے، انہیں مذاکرات کے لیے بلایا جاتا ہے، لیکن جب لوگ اپنے مسائل پر پرامن طور پر آواز بلند کرتے ہیں، اپنے حقوق کے بارے میں بات کرتے ہیں، تو ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ انہیں مختلف طریقوں سے ہراساں کیا جاتا ہے، خوفزدہ کیا جاتا ہے اور دھمکیاں دی جاتی ہیں۔‘
’میں ایک عام زندگی جینا چاہتی تھی‘
سمی دین بلوچ نے اپنی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے گاؤں اواران واپس نہیں جا سکتیں کیونکہ وہ ریاستی فورسز کے کنٹرول میں ہے۔ انہیں متعدد بار جیل جانا پڑا اور اب ان کا نام نو فلائی لسٹ میں ڈال دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے وہ بین الاقوامی فورمز پر بلوچ حقوق کے لیے لابنگ نہیں کر سکتیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم، بلوچ نے کہا کہ یہ جدوجہد جاری رہے گی اور انہیں فخر ہے کہ بلوچستان جیسے قدامت پسند علاقے کی کئی خواتین اس تحریک میں شامل ہیں اور اس کی قیادت کر رہی ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی بی وائی سی کی بنیاد خود ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے رکھی تھی، جو اپنے والد کے اغوا اور اغوا کاروں کے ہاتھوں موت کے بعد ایک سرگرم کارکن بن گئی تھیں، جنہیں وہ ریاستی حکام کہتی ہیں، جو الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
بلوچ نے کہا: ’ہم نے دیکھا کہ ہمارے مرد، ہمارے بھائی اور بیٹے، انہیں منظم طریقے سے گھروں، تعلیمی اداروں اور رات کے وقت بستروں سے گھسیٹ کر لے جایا گیا۔ ایسے حالات میں بلوچ خواتین کے پاس اس جدوجہد کی قیادت کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا تھا۔‘
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ اس عمل میں انہیں اپنی ذاتی زندگی کی قربانی دینا پڑی: ’میری عمر کی دوسری لڑکیاں جو اپنی کتابوں میں پھول کی پتیاں رکھتی ہیں، جو اپنی ڈائریوں میں نظمیں لکھتی ہیں، جو اپنے موبائل فون پر مختصر ویڈیوز اور تصویریں اپ لوڈ کرتی ہیں، جن کی دنیا سادہ اور معصوم چیزوں کے گرد گھومتی ہے۔ میں بھی چاہتی تھی کہ میری زندگی نارمل ہو، ایک ایسا گھر ہو جہاں میرے والد موجود ہوں، میرا خاندان مکمل ہو، جہاں ہنسی ہو، خوشی ہو، سکون ہو۔ لیکن افسوس، یہ میری قسمت میں نہیں تھا۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ بلوچ علیحدگی پسندوں کی جانب سے پنجابی شہریوں کے حالیہ قتل کی مذمت کرتی ہیں، جو انہیں بیرونی قابض اور ریاستی جبر کی علامت سمجھتے ہیں، تو بلوچ نے کہا کہ بے وائی سی نے کئی بار ایسے واقعات کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا: ’بطور انسانی حقوق کی کارکن اور سیاسی ورکر، ہم نے ان واقعات کی مذمت کی ہے۔‘
تاہم، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بلوچستان کے مسائل کی ’اصل جڑ‘ کو سمجھنا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا: ’چاہے وہ بلوچستان کا رہائشی ہو یا کوئی باہر سے آیا ہوا شخص، سبھی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ان کی زندگیاں، ان کی املاک، ان کا تحفظ صرف اس لیے خطرے میں ہے کیونکہ یہاں لاقانونیت ہے، جہاں قانون کی حکمرانی نہیں ہوتی، وہاں بدامنی اور عدم تحفظ جنم لیتا ہے۔ بلوچستان کی موجودہ صورتحال اسی حقیقت کی عکاسی ہے۔‘