کہاں کھڑے ہیں ہم!

المیہ یہ ہے کہ 80 ہزار شہادتوں کے باوجود دہشت گردی کے خلاف جنگ ’اگر مگر‘ کا شکار ہے جبکہ انتہا پسندی کے خلاف بیانیے کا ’چونکہ چنانچہ‘ پر انحصار ہے۔

28 فروری 2025 کو اکوڑہ خٹک میں واقع دارالعلوم حقانیہ میں نماز جمعہ کے دوران ہونے والے خودکش دھماکے کے بعد  سکیورٹی اہلکار پہرہ دے رہے ہیں (اے ایف پی)
 

ہم گزرے لمحوں کے حساب میں بھی تفریق کے قائل ہیں یہی وجہ ہے کہ امن کی مختصر کتاب کا بےنام انتساب اور بےمعنی عنوان ہے۔ ہماری ناکامیوں کے حساب میں منافع اور شکست کے نصاب میں اضافہ نفرتیں بےحساب اور تقسیم شدید تر کیوں ہے؟ شاید کھونے کا ہنر جاننے والی قومیں کبھی پانے کی جستجو کرتی ہی نہیں۔

منظر نامے پر نئے چیلنجز ابھر رہے ہیں اور ان میں سب سے اہم چیلنج امن و امان کا ہے جس کے بغیر  معیشت اور معاشی استحکام ناپید ہو گا؟ امن کا قیام ہر دس سال بعد ایک بڑا سوال کیوں بن جاتا ہے شاید ایک سکیورٹی سٹیٹ کا المیہ یہی ہے۔

المیہ تو یہ بھی ہے کہ 80 ہزار اموات کے باوجود دہشت گردی کے خلاف جنگ ’اگر مگر‘ کا شکار ہے جبکہ انتہا پسندی کے خلاف بیانیے کا ’چونکہ چنانچہ‘ پر انحصار ہے۔

پاکستان کو اب ایک نئی جنگ کا سامنا ہے یا پرانی جنگ خون آشام پنجے کھولے سامنے کھڑی ہے؟ تحریک طالبان، داعش اور اسلامک سٹیٹ خراسان پراونس (آئی ایس کے پی)، یہ سب ایک جسم مگر نام مختلف ہیں یا کم از کم پاکستان کے خلاف سب اکٹھے ہو گئے ہیں، مقصد محض پاکستان اور سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانا اور مملکت کو کمزور کرنا ہے۔ اب اس پرانی جنگ کے نئے روپ کا نیا انداز کیا ہو گا، کیا اس کا اندازہ کسی کو ہے؟

دہشت گردی کا سوئچ اچانک آن نہیں ہوا، البتہ اس کا رخ مذہبی اداروں اور شخصیات کی جانب کیسے مڑا ہے یہ سوال اہم اور سنجیدہ ہے۔ آئی ایس کے پی کا وجود مشرق وسطیٰ کی بھیانک جنگ کی صورت سامنے کھڑا ہے جبکہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں تمام انتہا پسند اور علیحدگی پسندوں کے گٹھ جوڑ نے افغانستان اور ایران سے جڑے دو صوبوں کے امن کو تہ و بالا کر رکھا ہے۔ گلگت بلتستان میں مذہبی منافرت کی سازشیں عروج پر ہیں۔ ایران میں ایک نئی صورت حال جنم لے رہی ہے جس کا ادراک ہمیں ابھی سے کرنا ہو گا۔

سندھ میں قوم پرستی نے نیا سر اٹھایا ہے جس کی وجہ نئی نکالی جانے والی نہریں ہیں۔ سندھ میں پہلی بار نہروں کے مسئلے پر قوم پرست اور قومی سیاسی جماعتیں ایک صفحے پر آ گئی ہیں۔ چولستان میں کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر سندھ کے پانی کی تقسیم پر جماعتیں سراپا احتجاج اور سول سوسائٹی شکوہ کناں ہیں، سندھ کی زرخیز زمین سے پانی چھین کر صحراؤں کو سیراب کرنا کون سی حکمت عملی ہے اور اس سے ارباب اختیار کے ہاتھ کیا آئے گا، سمجھ سے بالاتر ہے۔

دوسری جانب اس مسئلے پر آئے دن ہونے والے احتجاج قومی میڈیا سے سرے غائب ہیں۔ اس قدر حساس منصوبے پر بغیر رائے عامہ ہموار کیے اور عوامی جماعتوں کو ساتھ لیے کس طرح آناً فاناً عمل درآمد کر دیا گیا ہے۔ اس موضوع سمیت کسی بھی اہم مسئلے پر اب تک مشترکہ مفادات کی کونسل کا اجلاس تک نہیں بلایا گیا۔ مانا کہ یہ جمہوریت نہیں ہے لیکن اس ہائبرڈ پلس ’بندوبست‘ میں کم از کم کچھ تو پردہ رکھنا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس حکومت کی تشکیل کے ایک سال میں جہاز نما کابینہ کی تشکیل مشرق سے مغرب وزیروں کا انتخاب اور پیپلز پارٹی کی ’مجبوریوں‘ کے باوجود کابینہ میں عدم شمولیت حکومت کے استحکام کی نہیں بلکہ غیر مستحکم ہونے کی دلیل ہے۔

بظاہر شہباز حکومت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں تاہم سیاست بنا ریاست چلانا جمہوری تاثر بھی نہیں۔ حکومت معاشی اشاریوں میں کسی حد تک کامیابی کا دعویٰ تو کر سکتی ہے مگر سیاسی طور پر کمزور حکومت کی حیثیت کسی طور ایک ٹیکنو کریٹک سیٹ اپ سے زیادہ بھی نہیں۔

سیاسی مکالمے کی عدم موجودگی اور سویلین بالادستی تو دور کی بات سیاسی نظام کی موجودگی کا سوال بھی اپنی حیثیت کھو چکا ہے۔ جہاں حکومت کی کامیابیاں سیپشل انویسٹمنٹ اینڈ فیسیلیٹشن کونسل (ایس آئی ایف سی) کی مرہون منت اور ناکامیاں ن لیگ کی جھولی میں گر رہی ہوں، وہاں اقتدار کیا اور اختیار کیسا؟

موجودہ حکومت کے ایک سال میں سیاسی، معاشی اور داخلی محاذ پر چیلنجز سے نمٹنے کا حساب لگائیں تو دو دونی ایک یعنی منفی پارلیمان ہے۔

عالمی سطح پر بدلتے حالات اور ریاست کو درپیش چیلنجز پر پارلیمان جیسے اہم فورم پر بحث تک کا نہ ہونا اس بات کا اظہار ہے کہ پارلیمنٹ کی حیثیت اب ربڑ سٹیمپ جیسی بھی نہیں رہی۔ کم از کم پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے اور بتایا جائے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہمیں کیا کرنا چاہیے۔

احساس کی آنکھیں کھلیں تو جانیں کہاں کھڑے ہیں ہم۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر