ایک امریکی جج نے بدھ کو کولمبیا یونیورسٹی کے ایک زیر حراست طالب علم کی ملک بدری پر عائد عارضی پابندی میں توسیع کر دی ہے۔
امریکہ کی ایک ذیلی عدالت کے جج جیس فرمن نے اس ہفتے کے شروع میں محمود خلیل کو ملک بدر کرنے کے فیصلے پر عمل درآمد پر عارضی طور پر پابندی عائد کی تھی اور بدھ کو مین ہٹن کی وفاقی عدالت میں ہونے والی سماعت کے بعد اپنے تحریری فیصلے میں اس پابندی کو مزید بڑھا دیا، تاکہ وہ اس گرفتاری کی آئینی حیثیت پر مزید غور کر سکیں۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے جو کاغذات دیکھے ان کے مطابق محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی ( ڈی ایچ ایس) کا کہنا ہے کہ 30 سالہ محمود خلیل کو ایک قانونی شق کے تحت ملک بدر کیا جا سکتا ہے، جس کے تحت امریکی وزیر خارجہ یہ طے کر سکتے ہیں کہ کسی بھی تارک وطن کی موجودگی امریکی خارجہ پالیسی کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔
محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی کی ایک دستاویز، جو روئٹرز کو موصول ہوئی، کے مطابق ’وزیر خارجہ نے فیصلہ دیا ہے کہ آپ کی موجودگی یا سرگرمیاں امریکہ کے لیے سنگین منفی خارجہ پالیسی نتائج پیدا کریں گی۔‘
یہ دستاویز 9 مارچ کو جاری کی گئی اور خلیل کو 27 مارچ کو امیگریشن جج کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم، اس میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔ ڈی ایچ ایس نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا فوری طور پر جواب نہیں دیا۔
خلیل کے وکلا کا کہنا ہے کہ ہفتے کو ڈی ایچ ایس ایجنٹس کے ہاتھوں ان کی گرفتاری دراصل ان کے غزہ پر اسرائیل کے فوجی حملے کے خلاف کھل کر اظہارِ رائے کرنے کا نتیجہ ہے اور یہ امریکی آئین کی پہلی ترمیم کے تحت ان کے آزادی اظہار کے حق کی خلاف ورزی ہے۔
خلیل کے وکیل، رمزی قاسم نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا: ’خلیل کو فلسطینی حقوق کی وکالت کرنے کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا، گرفتار کیا گیا، اور اب انہیں ملک بدر کرنے کی کارروائی کی جا رہی ہے۔‘
بدھ کو سماعت کے بعد محمود خلیل کی اہلیہ نورا عبداللہ نے اپنے پہلے میڈیا انٹرویو میں روئٹرز سے بات کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ ان کے شوہر جلد رہا ہو کر نیویارک واپس آ جائیں گے، خاص طور پر اس لیے کہ ان کا پہلا بچہ اگلے ماہ پیدا ہونے والا ہے۔
انہوں نے کہا: ’یہ بہت مشکل وقت ہے کہ وہ میرے ساتھ نہیں ہیں، یہ سب جذباتی اور تکلیف دہ ہے۔ وہ ہر موقعے پر میرے ساتھ موجود رہے ہیں۔‘
عدالت کے باہر خلیل کے وکیل قاسم نے صحافیوں کو بتایا کہ ڈی ایچ ایس نے جو قانونی شق استعمال کی ہے وہ بہت کم استعمال کی جاتی ہے اور اسے اختلافی آوازوں کو دبانے کے لیے نہیں بنایا گیا تھا۔
خلیل شام میں ایک فلسطینی پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے اور 2022 میں طالب علم ویزے پر امریکہ آئے۔ گذشتہ سال انہیں مستقل رہائشی (گرین کارڈ ہولڈر) کا درجہ ملا تھا۔
وہ کولمبیا یونیورسٹی میں غزہ پر اسرائیلی حملے کے خلاف احتجاجی تحریک میں نمایاں رہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر الزام لگایا ہے کہ خلیل حماس کی حمایت کرتے ہیں، تاہم ان پر کسی جرم کا الزام عائد نہیں کیا گیا اور حکومت نے اس حوالے سے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ امریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں، بشمول کولمبیا یونیورسٹی میں ہونے والے فلسطین حامی احتجاجی مظاہروں میں حماس کی حمایت اور یہودی طلبہ کو ہراساں کرنے کے واقعات پیش آئے ہیں۔ تاہم، احتجاجی مظاہروں کے منتظمین کا کہنا ہے کہ اسرائیل پر تنقید کو غلط طور پر یہود دشمنی سے جوڑا جا رہا ہے۔
بدھ کو آئرلینڈ کے دورے کے دوران امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا: ’یہ معاملہ آزادی اظہار کے بارے میں نہیں ہے۔ اگر کوئی حماس کی حمایت کرتا ہے اور ہماری یونیورسٹیوں میں آ کر وہاں انتشار پھیلاتا ہے۔۔۔ اگر آپ امریکہ آنے سے پہلے ہمیں بتاتے کہ آپ یہی کرنے والے ہیں، تو ہم آپ کو کبھی داخل نہ ہونے دیتے۔‘
بدھ کو مین ہٹن کی عدالت کے باہر سینکڑوں مظاہرین جمع ہوئے، جن کے ہاتھوں میں ’محمود خلیل کو رہا کرو‘ کے نعرے درج بینرز تھے اور وہ ’ملک بدری مردہ باد، آزادی زندہ باد‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔
سماعت کے دوران سرکاری وکیل برینڈن واٹر مین نے موقف اختیار کیا کہ خلیل کی گرفتاری کے خلاف درخواست نیو جرسی منتقل کی جائے، جہاں انہیں پہلی بار حراست میں لیا گیا تھا، یا لوزیانا بھیجی جائے، جہاں انہیں فی الحال قید رکھا گیا ہے۔
جج فرمن نے حکم دیا کہ خلیل کو بدھ اور جمعرات کو اپنے وکلا سے دو نجی فون کالز کی اجازت دی جائے، کیونکہ وکیل قاسم نے شکایت کی تھی کہ ان کے مؤکل کو تاحال صرف ایک بار اپنے وکلا سے بات کرنے کی اجازت دی گئی تھی اور وہ کال بھی قبل از وقت منقطع کر دی گئی تھی، جو حکومت کے زیر نگرانی اور ریکارڈ کی جا رہی تھی۔
فرمن کے فیصلے سے پہلے بھی اس بات کا کوئی اشارہ نہیں تھا کہ خلیل کی ملک بدری فوری طور پر ہونے والی ہے۔ خلیل کو امیگریشن عدالت میں ایک علیحدہ جج کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کرنے کا حق حاصل ہے تاکہ ملک بدری سے بچا جا سکے، جو ممکنہ طور پر ایک طویل قانونی عمل ثابت ہو سکتا ہے۔