امریکی صدر ٹرمپ کو یہودی اور مسلمان گروپس کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب انہوں نے ایک ڈیموکریٹک سینیٹر کو ہتک آمیز رویہ اپناتے ہوئے ’فلسطینی‘ کہہ دیا تھا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ٹرمپ نے اوول آفس میں میڈیا سے گفتگو میں یہودی سینیٹر چک شومر کے بارے میں کہا کہ وہ ’فلسطینی بن گئے ہیں۔‘
امریکی صدر نے کہا کہ ’وہ (شومر) یہودی ہوا کرتے تھے، وہ اب یہودی نہیں رہے، اب وہ فلسطینی ہیں۔‘
سینیٹ میں اقلیتوں کے رہنما اسرائیل کے عرصے سے حامی ہیں تاہم وہ دو ریاستی حل کی حمایت میں بات کرتے ہیں اور اسرائیل پر غزہ میں جارحیت پر تنقید بھی کرتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکی صدر کے حالیہ تبصرے نے ان کو مسلمان اور یہودی دونوں گروہوں کی جانب سے تنقید کی زد میں لا کھڑا کیا۔
یہودی حقوق کی تنظیم اینٹی ڈیفیمیشن لیگ نے کہا کہ ’ایک صدر کے پاس بہت سے اختیارات ہوتے ہیں، لیکن یہ اختیار نہیں ہوتا کہ فیصلہ کریں کون یہودی ہے اور کون نہیں۔ ایسا کرنا اور ’فلسطینی‘ کو بطور توہین (slur) استعمال کرنا، دونوں ہی باتیں کسی امریکی صدر کے لائق نہیں ہیں۔‘
کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز (CAIR) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر، نہاد عواد نے ٹرمپ سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔
عواد نے کہا کہ ان کی جانب سے ’فلسطینی‘ کی اصطلاح کا بطور توہین استعمال کرنا ’جارحانہ اور ان کے دفتر کے وقار کے خلاف‘ ہے۔
جیوش ڈیموکریٹک کونسل آف امریکہ کی سی ای او ہیلی سوفر نے بھی ٹرمپ کے بیانات کی مذمت کرتے ہوئے انہیں ’قابل نفرت‘ قرار دیا۔
گذشتہ ماہ بھی، ٹرمپ نے شومر کو فلسطینی کہا، جب امریکی صدر نے غزہ کی پٹی پر قبضہ کرنے اور فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کے منصوبے کی تجویز پیش کی تھی۔
امریکی انتخابات سے قبل، ٹرمپ نے شومر پر ’حماس کا قابل فخر رکن‘ ہونے کا بھی الزام لگایا۔