دو امریکی وفاقی ججز نے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے وفاقی ملازمین کی بڑے پیمانے پر برطرفیوں کو عارضی طور پر روک دیا، جو کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کے حجم کو کم کرنے کی کوششوں کے لیے ایک بڑا دھچکہ ہے۔ ان فیصلوں میں حکومت کے برطرفی کے عمل میں قانونی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق جمعرات کو سان فرانسسکو میں امریکی ڈسٹرکٹ جج ولیم السپ اور بالٹی مور میں امریکی ڈسٹرکٹ جج جیمز بریڈر نے پایا کہ انتظامیہ کی جانب سے کی گئی برطرفیاں وفاقی ملازمت کے قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔ جج السپ نے کہا کہ آفس آف پرسنل مینجمنٹ ( او پی ایم) اور اس کے قائم مقام ڈائریکٹر چارلس ایزل کو مختلف سرکاری اداروں میں برطرفیاں کرنے کا اختیار حاصل نہیں تھا۔
دوسری طرف، جج بریڈر نے فیصلہ دیا کہ حکومت نے بڑے پیمانے پر برطرفیوں کے لیے مقرر کردہ قانونی طریقہ کار کو نظر انداز کیا اور کم از کم دو ہفتوں تک ان برطرفیوں کو روک دیا۔
یہ تنازع کم از کم 24000 پروبیشنری (آزمائشی مدت کے) ملازمین کی برطرفی سے متعلق ہے، جو ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہوئی ہیں۔
متعدد مقدمات میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان برطرفیوں کے پیچھے سیاسی محرکات تھے نہ کہ کارکردگی کے مسائل۔
مدعیوں کا کہنا ہے کہ کئی ملازمین کو ان کی برطرفی سے چند ماہ قبل بہترین کارکردگی کے سرٹیفکیٹ دیے گئے تھے، اس کے باوجود انہیں نکال دیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم ٹرمپ انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ یہ برطرفیاں قانونی تھیں، کیونکہ پروبیشنری (آزمائشی مدت کے) ملازمین کو مکمل سول سروس تحفظ حاصل نہیں ہوتا اور انہیں کسی بھی وقت برطرف کیا جا سکتا ہے۔
جانز ہاپکنز یونیورسٹی
دوسری جانب فرانسیسی خبر رساں ایجنسی نے اطلاع دی ہے کہ امریکی تحقیقاتی ادارے جانز ہاپکنز یونیورسٹی نے جمعرات کو اعلان کیا کہ وہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے یو ایس ایڈ فنڈنگ میں 80 کروڑ ڈالر کی کٹوتیوں کے بعد دنیا بھر میں اپنے 2000 سے زیادہ ملازمین کو برطرف کرنے پر مجبور ہے۔
یہ برطرفیاں دنیا بھر میں 1,975 ملازمتوں اور امریکہ میں 247 ملازمتوں پر اثر انداز ہوں گی۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شعبے یونیورسٹی کے میڈیکل سکول، پبلک ہیلتھ پروگرام، اور Jhpiego نامی ایک غیر منافع بخش ادارہ ہیں، جو پچھلے 50 سالوں سے عالمی سطح پر صحت عامہ کی بہتری کے لیے کام کر رہا ہے۔
یونیورسٹی نے ایک بیان میں کہا : ’یہ ہمارے پورے ادارے کے لیے ایک مشکل دن ہے۔ جانز ہاپکنز کو فخر ہے کہ ہمارے محققین، طبی ماہرین، اور صحت کے کارکنان ماؤں اور نوزائیدہ بچوں کی دیکھ بھال، بیماریوں کے خلاف جنگ، صاف پانی کی فراہمی اور دیگر اہم انسانی خدمات انجام دے رہے تھے۔‘
جانز ہاپکنز یونیورسٹی، جو امریکہ کی معروف تحقیقاتی درسگاہوں میں شامل ہے، سالانہ تقریباً ایک ارب ڈالر کی فنڈنگ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ ( این آئی ایچ) سے حاصل کرتی ہے۔ تاہم، یو ایس ایڈ کے بجٹ میں کمی کی وجہ سے عالمی صحت کے کئی منصوبے ختم کیے جا رہے ہیں۔
یونیورسٹی کے صدر رونالڈ ڈینیئلز نے پہلے ہی طلبہ اور اساتذہ کو متنبہ کیا تھا کہ وفاقی بجٹ میں کٹوتیوں کے باعث تحقیق اور ترقی کے پروگرام بری طرح متاثر ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ پچھلے سال یونیورسٹی کے تحقیقی بجٹ کا تقریباً آدھا حصہ وفاقی فنڈنگ سے ملا تھا۔
ٹرمپ، اپنے سینئر مشیر ایلون مسک کے ساتھ، وفاقی اخراجات میں کمی کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، جس میں خاص طور پر غیر ملکی امداد اور تحقیق کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کٹوتیوں سے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ سکتی ہیں، کیونکہ یو ایس ایڈ ترقی پذیر ممالک میں صحت اور ہنگامی امداد فراہم کرتا ہے۔