امریکہ: کولمبیا یونیورسٹی کے بعد فلسطین کے حق میں مظاہروں نے شدت اختیار کرلی

ہارورڈ اور بوسٹن یونیورسٹی کے طلبا نے کولمبیا یونیورسٹی کے فلسطین کے حامی طلبہ سے اظہار یکجہتی میں مظاہرہ کیا جس میں فلسطین کے حق میں نعرے لگائے گئے۔

 امریکہ کی کولمبیا یونیورسٹی میں فلسطین کے حق میں مظاہرے کرنے پر سو سے زائد طلبہ کو گرفتار کر لیا گیا ہے جس کے بعد دیگر امریکی یونیورسٹیوں میں مظاہروں نے شدت پکڑ لی ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق طلبہ کی گرفتاریاں کانگریس میں معروف یونیورسٹی کی صدر کی یہود مخالف ہونے کے الزامات پر پیشی کے بعد سامنے آئیں۔

نیویارک کے میئر ایریک ایڈمز نے ایک پریس کانفرنس میں کہا: ’این وائے پی ڈی کے افسران کیمپس، سٹوڈنٹس، اور طلبہ کی حفاظت کے لیے پہنچ گئے تھے، 108 سے زائد گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں اور این وائے پی ڈی نے یقین دلایا کہ کوئی تشدد اور نقصان اس دوران پیش نہیں آیا۔‘

تاہم اے ایف پی کے ایک صحافی کے مطابق فلسطین کے حامی طلبہ گرفتاریوں اور ٹینٹس کو اکھاڑنے کے بعد حمایتیوں کا تانتا بندھ گیا۔

سات اکتوبر کے بعد سے یونیورسٹیاں امریکہ میں شدید ثقافتی بحث کا مرکز بن گئی ہیں، کیونکہ بہت سے طلبا کے فلسطین حامی جذبات کو یہود دشمنی کے الزامات کا سامنا ہے۔

سی بی ایس بوسٹن نے رپورٹ کیا کہ ہارورڈ اور بوسٹن یونیورسٹی کے طلبا نے کولمبیا یونیورسٹی کے فلسطین کے حامی طلبہ سے اظہار یکجہتی میں مظاہرہ کیا جس میں فلسطین کے حق میں نعرے لگائے گئے۔

کولمبیا یونیورسٹی کا تل ابیب یونیورسٹی کے ساتھ ایک تبادلہ پروگرام بھی ہے، جس کے باعث طلبا کا مطالبہ ہے کہ غزہ میں اسرائیلی جنگ اور انسانی بحران کی روشنی میں اسرائیل کے ساتھ منسلک تمام سرگرمیوں کا بائیکاٹ کیا جائے۔

دی نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ڈیموکریٹک نمائندہ الہان عمر کی بیٹی بھی زیر حراست لیے جانے والوں میں شامل ہیں اور ان کی عدالت میں پیشی بھی ہوگی۔

اس حوالے سے اسرا ہیرسی کی پوسٹ کا جواب دیتے ہوئے امریکہ کی ڈیموکریٹک سیاستدان الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز  نے لکھا: ’ایک طالب علم جس کا کوئی خراب ریکارڈ نہیں ہے وہ پرامن احتجاج کے 24 گھنٹے سے بھی کم وقت میں اچانک معطلی کا شکار کیسے ہو جاتا ہے؟ فلسطینی انسانی حقوق کے مظاہروں پر غیر متناسب کریک ڈاؤن کا کیا فائدہ ہوگا؟‘

کولمبیا یونیورسٹی کی صدر نعمت شفیق نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کی مداخلت کی درخواست کی، جن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کیمپس کے حفاظتی ضابطوں کی خلاف ورزی کی تھی۔

کانگریس کے رپبلکن اراکین نے یونیورسٹی آف پینسلوینیا، ہارورڈ کے صدور کو بھی گواہی کے لیے بلایا جبکہ ہارورڈ کی صدر کلاڈین گے نے حال ہی میں استعفیٰ دے دیا۔

سی بی ایس نیوز کے مطابق جمعے کی صبح کولمبیا یونیورسٹی کے مرکزی لان میں فلسطین کے حمایتیوں نے نعرے لگائے اور لگاتار تیسرے دن تک مظاہرہ جاری رکھا۔

ایک طالب علم نے سی بی ایس نیو یارک کو بتایا: ’مجھے نہیں لگتا تھا کہ حفاظت کے حوالے سے کوئی تشویش ہے، کیونکہ وہ (مظاہرین) درحقیقت ہر آنے والے کو کھانا پہنچا رہے تھے، وہ واقعی گھل مل رہے تھے۔ یہ دیکھ کر بہت اچھا لگا، حقیقت میں، کمیونٹی دونوں طرف یکجا ہو رہی ہے۔‘

سکول کے حکام نے خبردار کیا ہے کہ احتجاج مزید معطلیوں کا باعث بنے گا، لیکن طلبا کا کہنا ہے کہ وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

مظاہرہ کرنے والی طالبہ جن ہوکی نے کہا: ’واضح طور پر، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں، سکول پرامن طریقے سے احتجاج کرنے والے طلبا کی حفاظت کے لیے کوئی کوشش نہیں کررہا۔‘

ہوکی نے کہا کہ ’ہمارا مقصد یہود مخالف نہیں ہے۔ ہمارا مقصد صرف یہ کہنا ہے کہ ہم اس سے متفق نہیں ہیں جو اسرائیل کی حکومت مشرق وسطیٰ میں کر رہی ہے۔‘

دوسری جانب نیویارک پولیس کا کہنا ہے کہ اگر انتظامیہ دوبارہ پولیس کو اطلاع دیتی ہے کہ ان کے قواعد کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے تو وہ بقیہ سمسٹر میں سکول کے ساتھ مل کر کام کرنا جاری رکھیں گے۔

اس سے قبل این بی سی نے رپورٹ کیا کہ یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا کے کچھ طلبا نے کہا کہ مسلمان طالبہ اسنا تبسم کی ویلڈیکٹورین تقریر کو سکیورٹی خدشات کے باعث منسوخ کرنے کے عمل نے ان کو مایوس کیا۔

یونیورسٹی کے پرووسٹ اینڈریو گزمین نے پیر کو اعلان کیا کہ ’پچھلے کئی دنوں کے دوران، ہمارے ولیڈیکٹورین کے انتخاب سے متعلق بحث نے تشویش ناک صورت اختیار کر لی ہے۔‘

ایک بیان میں تبسم نے کہا کہ یونیورسٹی کا فیصلہ نسل پرستی پر پردہ ڈالنے کی ایک کوشش ہے۔

اپنی نامزدگی کے حوالے سے انہوں نے کہا: ’اگرچہ یہ میرے خاندان، دوستوں، پروفیسروں، اور ہم جماعت کے لیے جشن کا وقت ہونا چاہیے تھا، لیکن مسلم اور فلسطین مخالف آوازوں نے مجھے نسل پرستانہ نفرت کی مہم کا نشانہ بنایا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ