لاہور کے رہائشی عطا اللہ خان نے بجلی کے مہنگے بلوں سے نجات کے لیے 10 کلوواٹ (کے وی) کا آن گرڈ سولر سسٹم لگوانے کی غرض سے رقم جمع کی تھی، لیکن حکومت کی نئی نیٹ میٹرنگ پالیسی کے بعد انہیں ہائبرڈ سسٹم پر منتقل ہونا پڑا، جس پر انہیں پانچ لاکھ روپے اضافی خرچ کرنا پڑے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں: ’ہم نے 10 لاکھ روپے میں آن گرڈ سولر سسٹم خریدا تھا، لیکن جب حکومت نے نیٹ میٹرنگ پالیسی تبدیل کی اور آئی ایم ایف کے دباؤ میں آ کر سولر پر 18 فیصد ٹیکس لگانے کا اعلان کیا، تو ہمیں ہائبرڈ سسٹم پر جانا پڑا۔
’اب ہم اپنی بجلی خود ہی بیٹریوں میں محفوظ کر کے رات کو استعمال کرتے ہیں۔ کوشش یہی ہے کہ نہ واپڈا کو بجلی دیں اور نہ ہی ان سے بجلی خریدیں۔‘
وفاقی حکومت کی جاری کردہ نئی نیٹ میٹرنگ پالیسی کے تحت شمسی توانائی کے صارفین کو فی یونٹ 27 روپے کی بجائے اب 10 روپے ادا کیے جائیں گے تاکہ صرف گرڈ سے بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو ریلیف فراہم کیا جا سکے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ نیٹ میٹرنگ صارفین بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے فکسڈ چارجز اور کیپسٹی پیمنٹ ادا نہیں کرتے، جس کی وجہ سے حکومت پر مالی بوجھ بڑھ رہا ہے۔
وزارت بجلی و پانی کے مطابق 2024 کے اختتام تک نیٹ میٹرنگ صارفین کی وجہ سے دیگر صارفین پر 159 ارب روپے کا اضافی بوجھ منتقل ہوا، جو 2034 تک 4,240 ارب روپے تک پہنچ سکتا ہے۔
تاہم، سولر پینلز کے کاروبار سے وابستہ قمر مہدی حکومت کے اس مؤقف سے متفق نہیں۔
ان کا کہنا ہے، ’حکومت عام آدمی سے ریلیف چھین کر بجلی پیدا کرنے والے اداروں (IPPs) کو فائدہ پہنچا رہی ہے۔ اگر حکومت واقعی بجلی کے نرخ یکساں کرنا چاہتی ہے تو سولر صارفین کی طرح آئی پی پیز سے بھی 10 روپے فی یونٹ بجلی خرید کر دکھائے۔ بجلی تو ایک جیسی ہے، چاہے وہ گرڈ سے آئے یا سولر پینلز سے پیدا ہو۔‘
سولر صارفین کے خدشات
لاہور میں سولر پینلز کے تاجر محمد زمان کے مطابق، نئی پالیسی کے بعد زیادہ تر صارفین آن گرڈ سسٹم سے گریز کر رہے ہیں کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ اب وہ اپنی اضافی بجلی گرڈ میں شامل کر کے اس کا مناسب معاوضہ نہیں لے سکیں گے۔
انہوں نے کہا، ’لوگ اب بیٹریاں لگا کر بجلی ذخیرہ کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں تاکہ واپڈا کو کم سے کم بجلی فراہم کی جائے کیونکہ پہلے جیسی ایڈجسٹمنٹ کا فائدہ اب نہیں ہوگا۔‘
زمان کے مطابق، ’ہم نے آن گرڈ سولر سسٹمز کے آلات پر کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کی ہے، لیکن اب لوگ ہائیبرڈ سسٹمز کی جانب بڑھ رہے ہیں، جس سے ہمارے کاروبار کو نقصان ہو رہا ہے۔‘
آن گرڈ کی بجائے ہائیبرڈ سسٹم کو ترجیح کیوں؟
قمر مہدی کا کہنا ہے کہ نیٹ میٹرنگ صارفین کو آف گرڈ صارفین کے مقابلے میں زیادہ اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں کیونکہ انہیں اضافی آلات خریدنے ہوتے ہیں جو بجلی کی گرڈ سے درآمد اور برآمد (امپورٹ اور ایکسپورٹ) ممکن بناتے ہیں۔
انہوں نے وضاحت کی، ’نیٹ میٹرنگ کا سب سے بڑا فائدہ یہی تھا کہ صارفین اضافی بجلی گرڈ میں دے کر اپنے بلوں میں ایڈجسٹمنٹ حاصل کر سکتے تھے۔ گرین میٹر کے ذریعے سولر سسٹم کو واپڈا کے گرڈ سے منسلک کیا جاتا ہے، جس سے اضافی بجلی گرڈ کو فراہم کی جا سکتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’نیٹ میٹرنگ کے قوانین میں ظالمانہ تبدیلیاں قابل مذمت‘
پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی ترجمان شازیہ مری کے مطابق ان کی جماعت نے وفاقی حکومت کی متبادل انرجی کی نئی پالیسی کو مسترد کردیا ہے۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے نیٹ میٹرنگ کے قوانین میں ’ظالمانہ‘ تبدیلیاں قابل مذمت ہیں۔
’یہ عمل متبادل توانائی کے صارفین پر براہ راست حملہ اور پاکستان کے قابل تجدید توانائی کے مستقبل سے غداری ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت گرین انرجی پر جانے والے صارفین کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے ان سے ’کھلی جنگ‘ کر رہی ہے۔
’یہ پالیسی پاکستان کی شمسی توانائی کی صنعت کو تباہ کر دے گی، جس سے گھریلو اور تجارتی صارفین کے لیے شمسی توانائی ناقابل عمل ہو جائے گی۔‘
شمسی توانائی سے متعلق نئی پالیسی کے باعث صارفین، سولر انڈسٹری، اور کاروباری افراد مشکلات کا شکار ہیں۔
جہاں ایک طرف حکومت بجلی کے مالی بوجھ کو کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، وہیں دوسری طرف عام صارفین اور سولر پینل کے تاجر خود کو نقصان میں محسوس کر رہے ہیں۔