پاکستانی سفیر کو امریکہ میں روکنے کی تحقیقات کر رہے ہیں: دفتر خارجہ

ترکمانستان میں پاکستان کے سفیر جب لاس اینجلس پہنچے تو انہیں امریکہ میں داخل ہونے روک دیا گیا اور وہ واپس روانہ ہو گئے۔

وزارت خارجہ نے لاس اینجلس میں پاکستانی قونصلیٹ کو احسن واگن کے معاملے کی تحقیقات کی ہدایت کی ہے (وزارت خارجہ ویب سائٹ)

پاکستانی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ ترکمانستان میں اس کے سفیر احسن واگن کو امریکہ کے شہر لاس اینجلس کے ایئرپورٹ سے واپس بھجوانے کے معاملے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ 

کسی ملک کے سفارت کو یوں ہوائی اڈے پر روکنا ایک غیر معمولی واقع ہے جو سفارتی حلقوں میں بھی زیر بحث ہے۔ پاکستانی سفیر کو گذشتہ اختتام ہفتہ لاس اینجلس کے ہوائی اڈے پر روکا گیا تھا۔

پاکستانی دفتر خارجہ نے اس معاملے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’پاکستانی سفیر اپنے نجی دورے پر امریکہ گئے ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ پیش آنے والے واقعے پر وزارت خارجہ تحقیقات کر رہی ہے۔‘

وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور سیکرٹری خارجہ آمنہ بلوچ کو بھی اس واقعے سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔ وزارت خارجہ نے لاس اینجلس میں پاکستانی قونصلیٹ کو معاملے کی تحقیقات کی ہدایت کی ہے۔

احسن واگن کا تعلق صوبہ سندھ کے علاقے نوشیروفیروز سے ہے اور وہ 1996 سے وزارت خارجہ سے منسلک ہیں۔

سفارتی حکام سے ملنے والی معلومات کے مطابق سفیر بے شک ڈپلومیٹک پاسپورٹ پر سفر کریں لیکن اگر ویزہ سرکاری نہیں اور وہ وزٹ ویزہ پر سفر کر رہے ہیں تو ان کو ڈپلومیٹک امیونٹی نہیں ملتی۔ امیونٹی یا استثنٰی ویزے کے سرکاری ہونے پر ملتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کیا آنے والے دنوں میں نئی امریکی انتظامیہ پاکستان کے لیے مزید سختیاں لا رہی ہے یا اس کو انفرادی واقعہ سمجھا جائے؟ انڈپینڈنٹ اردو نے مختلف سفارتی ماہرین سے بات چیت کی۔

سابق سفیر عاقل ندیم نے کہا کہ ’سفیر کو ڈی پورٹ نہیں کیا بلکہ انہیں کہا گیا کہ آپ یہاں سے واپس چلے جائیں جس کے بعد وہ اگلی فلائٹ سے ترکمانستان واپس چلے گئے۔ ڈی پورٹ اور خود واپس آنے میں فرق ہوتا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’لگ رہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے مسلمان ممالک کے شہریوں کے لیے امریکہ کی سفری پابندیوں کی جو بات کی تھی یہ اس سلسلے کی کوئی کڑی ہو لیکن سفیر کا ذاتی دورہ ہونے کی وجہ سے میرا نہیں خیال کے حکومت امریکہ سے یہ معاملہ سفارتی سطح پر اٹھائے گی کیونکہ یہاں پر یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ سرکاری دورے یا سرکاری ویزے پر نہیں تھے۔

’اگر امریکہ سے بات چیت کی بھی تو شاید پبلک نہیں کیا جائے گا۔‘

سابق سفیر عبدالباسط نے کہا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ وہ ذاتی دورے پر تھے اور انہیں (امریکہ) داخلے سے روک دیا گیا یہ امریکہ کا حق ہے۔ ہو سکتا ہے ان کے امیگریشن نظام میں کچھ متنازع حوالہ جات ہوں جس کی بنیاد پر انہوں نے ایسا کیا ہو۔ جہاں تک تعلقات پر اثرات کا تعلق ہے تو یہ چیزیں پاکستان کے تناظر میں آتی جاتی رہتی ہیں۔‘

سفارتی تجزیہ کار شوکت پراچہ نے کہا کہ ’اس واقعے کو ہر گز ان بیانات کے ساتھ نہیں جوڑا جا سکتا جن میں قیاس آرائیاں کی گئیں کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستانیوں کا (امریکہ میں) داخلہ بند کرے گی اور ویزے نہیں ملیں گے، یہ ایک مختلف معاملہ ہے اس طرح کے انفرادی واقعے دو ممالک کے تعلقات پر اثرانداز نہیں ہوتے کہ اس سے سفارتی بحران پیدا ہو۔‘

واقعے کی تفصیل

دستیاب معلومات کے مطابق سفیر کو درست ویزہ اور تمام قانونی سفری دستاویزات رکھنے کے باوجود امریکہ میں داخلے سے روک دیا گیا۔ وہ اپنے ذاتی دورے پر چھٹیاں گزارنے لاس اینجلس جا رہے تھے کہ امریکی امیگریشن حکام نے انہیں ہوائی اڈے پر روک لیا۔

امیگریشن حکام نے جب آن لائن ان کا ویزہ چیک کیا تو امریکی آن لائن ویزہ نظام میں کچھ ایسے ویزا ریفرنسز تھے جو پاکستانی سفیر سے منسلک تھے جس کی وجہ سے نظام میں الرٹ آ گیا۔

وہ 2006 سے 2009 تک لاس اینجلس میں ڈپٹی کونصل جنرل رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ نیپال، اومان اور نائجر میں خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان