پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے جمعرات کو ہفتہ وار بریفنگ میں داعش کے رہنما شریف اللہ کی امریکہ کو حوالگی سے متعلق کہا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان انٹیلی جنس تعاون دیرینہ ہے، ممالک کی مشترکہ سرگرمی پہلی مرتبہ نہیں ہوئی ہےاور شریف اللہ کی حوالگی اقوام متحدہ کی قرارداروں کی روشنی میں ہوئی ہے۔
’پاکستان اور امریکہ کے درمیان انٹیلی جنس تعاون دیرینہ ہے اور اس سے متعلق تفصیلات کے بارے میں وزارت خارجہ کوئی تبصرہ نہیں کرے گا۔ تاہم اس طرح کی مشترکہ سرگرمی پہلی مرتبہ نہیں ہوئی ہے۔ شریف اللہ کی حوالگی سے متعلق وزیر اعظم کی پوسٹ پڑھ سکتا ہوں۔‘
ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے یہ بات داعش کے رہنما شریف اللہ عرب جعفر کے پکڑے جانے سے متعلق ان سوالات کے جوان میں کہی جن میں پوچھا گیا تھا کہ ’امریکہ اور پاکستان کے درمیان کس قسم کا تعاون تھا؟ یہ انٹیلی جنس شیئرنگ تھی یا کچھ اور؟‘
گذشتہ روز امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ نے امریکی نشریاتی ادارے کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ کابل ہوائی اڈے پر ہونے والے حملے کے ’ماسٹر مائینڈ‘کی گرفتاری کے لیے امریکہ نے انٹیلی جنس معلومات پاکستان کو فراہم کیں جس کو بنیاد بناتے ہوئے پاکستان نے کارروائی کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے پاکستانی حکام کو ہماری انٹیلی جنس پر مبنی معلومات دیں، جس کے بعد انہوں نے اسے گرفتار کیا اور درست شناخت کی تصدیق کی، ہمیں کچھ روز سے اس بارے میں علم تھا۔‘
ترجمان دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ شدت پسندوں، بشمول داعش خراسا ن کے خلاف پاکستانی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کوششوں کے نتیجے میں اہم کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔
شفقت علی خان نے کہا ’اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں، جو دسمبر 1973 میں جاری کی گئی تھیں، کے مطابق پاکستان نے شریف اللہ کو حوالے کرنے میں امریکہ کے ساتھ تعاون کیا۔ ان کارروائیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی دہشت گردوں کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سوال پر کہ امریکہ کو مطلوب داعش کے رہنما کی حوالگی کس قانون کے تحت عمل میں آئی؟ شفقت علی خان نے کہا ان تفصیلات سے متعلق وزارت داخلہ سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔
دو روز قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران افغانستان کے دارالحکومت کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر پر حملے میں ملوث ’بلا‘ کو امریکہ لایا جا رہا ہے۔
ٹرمپ نے سال 2021 کے اگست کے مہینہ میں امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے دوران ہونے والے کابل ہوائی اڈے کے ایبی گیٹ پر دھماکہ کا حوالہ دے رہے تھے جس میں 13 امریکی فوجیوں سمیت 150 سے زائد افراد مارے گئے تھے۔
افغان حکومت کے ترجمان نے آریانا نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے مستونگ میں داعش نے ایک تربیتی مرکز کھولا گیا ہے جس کی مالی اعانت اسی مرکز سے ہوتی ہے اور یہ پاکستانی فوج کی حفاظت میں ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو کے اس سے متعلق سوال کے جواب میں ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ’پاکستان میں دہشت گردوں کے حوالے سے افغانستان کی جانب سے کسی بھی بیان کو دوٹوک الفاظ میں مسترد کرتے ہیں۔ یہ افغانستان کے اندر دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کو بند کرنے کی اپنی ذمہ داری سے منہ موڑنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں ہے۔‘
شفقت علی خان نے کہا افغانستان میں بیٹھ کر ’دہشت گرد، دہشت گردی کی کارروائیاں‘ کر رہے ہیں۔
ترجمان کے مطابق پاکستان افغانستان کے ساتھ اچھے ہمسائے کے تعلقات چاہتا ہے لیکن افغانستان کی زمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔
’پاکستان بارہا اس حوالے سے افغان حکومت سے مطالبہ کرتا رہا ہے۔‘
تورخم بارڈر کی صورت حال پر ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ’تورخم بارڈر کی بندش افغان فورسز کی جانب سے متنازع علاقے میں چوکیاں بنانے کی وجہ سے ہوئی ہے، پاکستان اس بارڈر پر ہونے والے انتشار کی مذمت کرتا ہے۔ پاکستان افغان عبوری حکومت کو اس معاملے کو سنجیدگی سے حل کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘
بریفنگ کے دوران ترجمان دفتر خارجہ نے رمضان کے مہینے میں غزہ پر اسرائیل کی پابندیوں کی شدید مذمت بھی کی۔ ’غزہ کے عوام کو رمضان کے مہینے میں مساجد میں نماز کی ادائیگی کی اجازت ہونی چاہیے۔‘
انہوں نے کہا وزیر خارجہ اسحاق ڈار سعودی عرب کا دورہ کریں گے اور جدہ میں منعقد کیے گئے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے اجلاس میں شرکت کر کے۔
’فلسطینیوں کے حق خودارادیت کے حوالے سے بات کریں گے۔ فلسطین کی بگڑتی ہوئی صورتحال، فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت، اور جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے انسانی بحران پر پاکستان کا موقف رکھیں گے۔‘