اسرائیلی فوج نے منگل کو غزہ میں ’بڑے فضائی حملے‘ کیے ہیں جن میں فلسطینی حکام کے مطابق بچوں اور خواتین سمیت کم از کم 254 افراد جان سے گئے ہیں۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ وہ ’حماس کے کمانڈروں اور انفراسٹرکچر‘ کو نشانہ بنانے کے لیے حملے جاری رکھنے کے لیے تیار ہے اور یہ کارروائی فضائی حملوں سے آگے بھی بڑھائی جا سکتی ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے غزہ میں فضائی حملوں کی نئی لہر اس لیے شروع کی کیونکہ فائر بندی میں توسیع کے مذاکرات میں پیش رفت نہیں ہو رہی ہے۔
حماس نے ان حملوں کے بعد اسرائیل پر عزہ سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگایا ہے۔
ایک بیان میں حماس نے کہا ہے کہ ’اسرائیل نے سیز فائر معاہدے کو منسوخ کر دیا ہے جس کی وجہ سے غزہ میں قید 59 قیدیوں کی قسمت غیر یقینی ہو گئی ہے۔‘
تازہ فضائی حملوں کا نشانہ بننے والے مقامات میں شمالی غزہ، غزہ شہر، دیرالبلح، خان یونس اور رفح شامل ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فلسطینی وزارت صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ جان سے جانے والوں میں بڑی تعداد بچوں کی ہے۔
گذشتہ 15 ماہ تک بمباری کا نشانہ بننے والے ہسپتالوں میں منگل کو ہر طرف لاشیں پڑی دیکھی گئیں جو سفید پلاسٹ شیٹس میں ڈھکی ہوئی ہیں۔
فلسطینی ہلال احمر کا کہنا ہے کہ اب تک ان کی جانب سے 86 لاشیں اور 134 زخمیوں کو لایا گیا ہے جبکہ ان کے علاوہ بڑی تعداد میں نجی گاڑیوں میں بھی دیگر لاشیں اور زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق حماس نے اسرائیلی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ فلسطینی عوام کے خلاف بلاجواز جارحیت ہے‘ اور اس کی پوری ذمہ داری اسرائیلی حکومت پر ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے کہا کہ انہوں نے اس حملے کی اجازت اس لیے دی کہ فائر بندی کے مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی تھی۔
دوسری جانب امریکی نیشنل سکیورٹی کونسل کے تراجمان نے کہا ہے کہ ’حماس قیدیوں کو رہا کر کے سیز فائر معاہدے کو مزید بڑھا سکتا تھا مگر اس نے انکار اور جنگ کا انتخاب کیا۔‘