’انڈین پکاسو‘ کی پینٹنگز ناشائستہ ہونے کا الزام بے بنیاد: آرٹ گیلری

نئی دہلی کی عدالت کی جانب سے ’انڈیا کے پکاسو‘ کہلانے والے مصور مقبول فدا حسین کی دو پینٹنگز ضبط کرنے کا حکم جاری ہونے کے تین دن بعد، ان پینٹنگز کی نمائش کرنے والی گیلری نے اس کیس میں لگائے گئے ’بے بنیاد الزامات‘ کی سخت مخالفت کی ہے۔

14 جنوری 2004 کو لی گئی اس تصویر میں، انڈین مصور مقبول فدا (ایم ایف) حسین اپنی نمائش کے افتتاح کے موقع پر ’لاسٹ سپر‘ کے عنوان سے اپنی ایک پینٹنگ کے سامنے کھڑے ہیں (سیبسٹین ڈی سوزا/ اے ایف پی)

انڈیا کی عدالت کی جانب سے مصور مقبول فدا حسین (ایم ایف حسین) کی دو پینٹنگز ضبط کرنے کا حکم جاری ہونے کے تین دن بعد، ان پینٹنگز کی نمائش کرنے والی گیلری نے اس کیس میں لگائے گئے ’بے بنیاد الزامات‘ کی سخت مخالفت کی ہے، جن میں کہا گیا تھا کہ یہ تصاویر ’ناشائستہ‘ ہیں۔

20 جنوری کو دہلی ہائی کورٹ نے پولیس کو ان پینٹنگز ضبط کرنے کی اجازت دی۔ قبل ازیں امیتہ سچدیوا نامی ایک وکیل نے شکایت کی تھی کہ یہ فن پارے، جن میں ہندو دیوتاؤں گنیش اور ہنومان کو نیم عریاں خواتین کے ساتھ دکھایا گیا، ’مذہبی جذبات کو مجروح‘ کرتے ہیں۔

13 دسمبر کو ایکس پر کی گئی ایک پوسٹ میں امیتہ سچدیوا نے کہا کہ انہوں نے دہلی آرٹ گیلری میں ’ناشائستہ پینٹنگز‘ کی تصاویر لیں اور نو دسمبر کو ’ایم ایف حسین کے خلاف ماضی کی ایف آئی آرز پر تحقیق‘ کے بعد پولیس شکایت درج کروائی۔

مقبول فدا حسین، جنہیں ’انڈیا کے پکاسو‘ کا لقب دیا گیا، جنوبی ایشیا کے سب سے مشہور فنکاروں میں سے ایک تھے، لیکن تنازعات ان کے لیے نئے نہیں تھے۔ وہ بارہا ہندو گروپوں کی جانب سے دیوتاؤں کو برہنہ یا نیم برہنہ لوگوں کے ساتھ پیش کرنے پر فحاشی کے الزامات کا سامنا کرتے رہے۔

2006 میں مقبول فدا حسین نے اپنی پینٹنگ ’مہا بھارت‘ پر معافی مانگی تھی۔ اس تصویر میں ایک برہنہ عورت کو انڈیا کے نقشے کی شکل میں دکھایا گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد انہیں انڈیا چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا اور وہ اپنی زندگی کے آخری دنوں تک لندن میں خودساختہ جلاوطنی میں رہے، جہاں وہ 2011 میں 95 سال کی عمر میں چل بسے۔

عدالت کی جانب سے ضبط کی جانے والی پینٹنگز ’حسین: دی ٹائم لیس ماڈرنِسٹ‘ کے عنوان سے منعقد کی گئی نمائش کا حصہ تھیں، جس میں ایسے ’بڑے فن پارے‘ شامل تھے جو مقبول فدا حسین کی جانب سے انڈین زندگی، ثقافت اور جدیدیت کی تشریح کرتے ہیں۔ یہ نمائش 26 اکتوبر سے 14 دسمبر تک جاری رہی۔

گیلری نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ یہ نمائش تقریباً پانچ ہزار لوگوں نے دیکھی، جن میں ’سکالرز، ماہرینِ تعلیم، فن پارے جمع کرنے والے، طلبہ، آرٹ کے شوقین افراد اور صحافی شامل تھے اور اسے ذرائع ابلاغ اور عوام دونوں سے مثبت ردعمل ملا۔‘

گیلری نے کہا کہ ’یہ بات قابل ذکر ہے کہ آنے والے تقریباً پانچ ہزار شائقین میں سے کسی اور نے اس نمائش میں پیش کیے گئے کسی بھی فن پارے پر اعتراض نہیں کیا۔‘

گیلری کے مطابق: ’ہم نے یہ پینٹنگز کرسٹیز کی ایک نیلامی سے بین الاقوامی طور پر حاصل کیں اور باقاعدہ کسٹم کلیئرنس کے بعد انڈیا لائی گئیں۔‘

اپنی ایکس پوسٹ میں امیتہ سچدیوا نے دعویٰ کیا کہ جب وہ 10 دسمبر کو ایک پولیس افسر کے ساتھ دوبارہ گیلری گئیں تو پینٹنگز ہٹا دی گئی تھیں اور گیلری نے ’جھوٹا دعویٰ کیا کہ وہ کبھی نمائش میں پیش ہی نہیں کی گئیں۔‘

گیلری ترجمان نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’سچدیوا کا یہ بیان سراسر جھوٹا اور بدنیتی پر مبنی ہے۔ جب تفتیشی افسر نے نمائش کے دوران پیش کیے گئے فن پاروں کے بارے میں دریافت کیا تو ہم نے تمام فن پاروں کی فہرست ان کی تصاویر کے ساتھ فراہم کی، جن میں وہ فن پارے بھی شامل تھے، جنہیں وہ اپنے پہلے دورے کے دوران دیکھنے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ یہ واضح ہے کہ وہ جان بوجھ کر توجہ حاصل کرنے کے لیے جھوٹا بیانیہ بنا رہی ہیں کیونکہ دہلی آرٹ گیلری کے کسی بھی فرد نے ان کے ساتھ کسی بھی موقعے پر کوئی تبصرہ یا وضاحت نہیں کی۔‘

گیلری کے نمائندے نے مزید کہا کہ نمائش میں رکھی گئی پینٹنگز کو ’معمول کے مطابق دیگر فن پاروں سے تبدیل کیا گیا تاکہ تمام فن پاروں کو ان کے شایان شان نمائش کا وقت مل سکے۔‘

دی انڈپینڈنٹ نے سچدیوا سے ان کا مؤقف جاننے کے لیے رابطہ کیا۔ ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق سچدیوا نے عدالت سے درخواست کی کہ وہ گیلری کی سی سی ٹی وی فوٹیج کا تجزیہ کرے تاکہ معلوم ہو سکے کہ پینٹنگز کب اور کیوں ہٹائی گئیں۔

گیلری کا کہنا تھا کہ ’فنکارانہ آزادی پر اپنے واضح یقین کی بنیاد پر، دہلی آرٹ گیلری ان تمام الزامات کی تردید کرتی ہے جو شکایت کنندہ کی جانب سے لگائے گئے، جنہوں نے سرِعام دعویٰ کیا کہ وہ بنیادی طور پر مذہبی ایجنڈے سے متاثر ہیں۔‘

گیلری نے مزید کہا: ’حقیقت یہ ہے کہ شکایت کنندہ نے خود ان ڈرائنگز کی تصاویر کو سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ پر عام کیا اور جان بوجھ کر انہیں زیادہ وسیع ناظرین تک پہنچانے کی کوشش کی، جب کہ انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ یہی تصاویر ان کے ذاتی مذہبی جذبات کو مجروح کرتی ہیں۔‘

پیر کو اپنے حکم میں عدالت نے کہا کہ پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیج ضبط کر لی ہے اور ایک رپورٹ جمع کروائی ہے، جس میں بتایا گیا کہ نمائش کا اہتمام ’نجی مقام‘ پر کیا گیا اور صرف فنکار کے اصل کام کو پیش کرنے کے لیے لگائی گئی۔ مزید کہا گیا کہ پینٹنگز گیلری سے ہٹا دی گئی ہیں اور اب پولیس کے پاس ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہندوستان ٹائمز کے مطابق، سچدیوا کے وکیل مکرند ادکر نے پولیس رپورٹ میں گیلری کو نجی مقام قرار دیے جانے پر اعتراض کیا، کیونکہ یہ عوام کے لیے کھلی ہوئی تھی ورنہ ’شکایت کنندہ وہاں گئی ہی نہ ہوتیں۔‘

وکیل نے دعویٰ کیا کہ ’ان پینٹنگز میں سناتن دھرم کی سب سے قابل احترام ہستیوں، ہنومان اور گنیش کی توہین کی گئی۔ یہ ناشائستہ عمل ہے۔ یہ ہندو دیوتاؤں کی بے عزتی کرنے کی جان بوجھ کر اور بدنیتی پر مبنی کوشش ہے۔ ہزاروں افراد نے ہمارے دیوتاؤں کو دیکھا۔ انہیں تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔‘

انڈپینڈنٹ نے سچدیوا سے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن اس خبر کی اشاعت کے وقت تک ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

سچدیوا نے گیلری کے خلاف مذہبی جذبات کو جان بوجھ کر اور بدنیتی سے مجروح کرنے کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کرنے کی درخواست کی، تاہم عدالت نے ان کی درخواست مسترد کر دی۔

دی انڈپینڈنٹ کو دیے گئے ایک بیان میں گیلری نے کہا کہ وہ ’شکایت کنندہ کے بے بنیاد الزامات کی سختی سے مخالفت کرتی ہے اور جب عدالت نے ایسا کرنے کے لیے کہا، ان کے دہلی آرٹ گیلری کے خلاف بدنیتی پر مبنی قانونی کارروائی شروع کرنے کی کوشش کو چیلنج کرے گی۔‘

گیلری نے مزید کہا کہ وہ ’شکایت کنندہ کے جھوٹے اور بدنیتی پر مبنی الزامات کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔‘

انڈین عدالتیں تاریخی طور پر ایم ایف حسین کے فنکارانہ آزادی کے حق کا تحفظ کرتی رہی ہیں۔ 2008 میں، دہلی ہائی کورٹ نے ان کے خلاف فحاشی کے الزامات کو مسترد کر دیا اور خبردار کیا کہ ’ثقافتی پاکیزگی کے نام پر ایک نئی سخت گیری کی مہم چلائی جا رہی ہے۔‘

عدالت نے کہا کہ ’قدیم ہندوستانی آرٹ کبھی عریانت سے خالی نہیں رہا، جہاں جنسی پوجا اور مرد و عورت کے ملاپ کی تصویری شکل میں عکاسی بار بار آنے والا پہلو رہا ہے۔‘

2011 میں سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو برقرار رکھا اور قرار دیا کہ مقبول فدا حسین کے فن پاروں کو آئین کی اس شق کے تحت تحفظ حاصل ہے، جو آزادی اظہارِ رائے اور تقریر کی ضمانت دیتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا