خیبر پختونخوا پولیس نے جمعے کو بتایا ہے کہ ملک کے شمال مغرب میں پاکستانی طالبان کے مختلف حملوں میں کم از کم پانچ پولیس اہلکار جان سے گئے اور چھ زخمی ہو گئے۔
ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ خیبر پختونخوا کے مختلف حصوں میں کم از کم پانچ الگ الگ حملے کیے گئے۔
ان حملوں کی ذمے داری تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی جس نے مارچ کے وسط میں سکیورٹی فورسز کے خلاف ’موسم بہار کی مہم‘ شروع کرنے کا اعلان کیا۔
اس کے بعد سے یہ گروپ خیبر پختونخوا، جو افغان سرحد کے ساتھ واقع پہاڑی علاقہ ہے، میں 80 سے زائد حملوں کی ذمے داری قبول کر چکا ہے۔
پشاور میں پولیس کے سربراہ قاسم علی نے کہا کہ ’حال ہی میں پولیس پر حملوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔‘
اس علاقے میں ایسے واقعات روز کا معمول ہیں جہاں فوج باقاعدگی سے یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ ’دہشت گردوں‘ کو جان سے مارتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
قاسم علی نے بتایا کہ ٹی ٹی پی کی مہم کے اعلان کے بعد صرف دو دن کے اندر نو اضلاع میں پولیس پر حملے کیے گئے۔ پولیس نے اس کے جواب میں انسداد دہشت گردی کی مزید کارروائیاں کیں۔
اے ایف پی کے اعدادوشمار کے مطابق خیبر پختونخوا اور اس سے ملحقہ صوبہ بلوچستان میں رواں سال کے آغاز سے اب تک ریاست کے خلاف شدت پسندوں کے حملوں میں 170 سے زائد افراد کی جان جا چکی ہے جن میں زیادہ تر سکیورٹی اہلکار تھے۔
بلوچستان میں رواں ماہ ریل گاڑی کے مسافروں کو یرغمال بنا لیا۔ حکام کے مطابق اس واقعے تقریباً 60 افراد جان سے گئے جن میں سے نصف وہ علیحدگی پسند تھے جو اس حملے میں ملوث تھے۔
گذشتہ سال تقریباً ایک دہائی کا سب سے خونریز سال رہا، جس میں پاکستان میں ہونے والے حملوں میں 1600 سے زائد لوگوں کی جان گئی جن میں سے تقریباً نصف سکیورٹی فورسز کے اہلکار تھے۔ یہ اعدادوشمار اسلام آباد میں قائم سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز نے جاری کیے۔
تشدد کے واقعات زیادہ تر افغانستان کے ساتھ سرحدی علاقوں تک محدود ہیں۔
پاکستانی حکومت کا الزام ہے کہ کابل اپنی سرزمین سے سرگرم ان شدت پسندوں کے خلاف کارروائی میں ناکام رہا جو پاکستان کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ تاہم طالبان حکام اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔