پاکستان نے انڈیا میں حکومتی سطح پر اسلامو فوبیا کی سرپرستی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اقتدار میں آنے کے بعد سے انڈیا کے 20 کروڑ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف نفرت، جبر اور تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جمعرات کو ’کلچر آف پیس‘ مباحثے کے دوران خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے کہا کہ کلچر آف پیس اقوام متحدہ کے چارٹر کے مرکزی مقاصد اور اصولوں کی پاسداری سے جڑا ہوا ہے لیکن بدقسمتی سے امن کے کلچر کو فروغ دینے کی ہماری متفقہ خواہش کے باوجود دنیا نفرت، تشدد اور جنگ کے عروج کا مشاہدہ کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’دنیا بھر میں 300 سے زائد تنازعات چل رہے ہیں۔ خاص طور پر فلسطین اور جموں و کشمیر میں لوگوں کے حق خود ارادیت کو بے دردی سے کچلا جا رہا ہے جب کہ ہم مستحکم جمہوریتوں میں بھی امتیازی سلوک، تعصب، زینو فوبیا اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کو پھیلتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا: ’عالمی برادری انڈیا میں حکومتی سرپرستی میں اسلامو فوبیا کے اقدامات پر گہری تشویش کا اظہار کرنے میں ناکام رہی ہے کیوں کہ 2014 میں بی جے پی کی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہندوتوا کے نظریے کے تحت انڈیا کے 20 کروڑ مسلمانوں، دیگر اقلیتوں، مسیحیوں اور نچلی ذات کے افراد کے خلاف نفرت، جبر اور تشدد بڑھ رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہندوتوا کا نظریہ ایک صدی پرانے یورپی فاشزم سے متاثر ہے اور یہ نظریہ آج نریندر مودی کی زیر قیادت انڈیا میں منظم طریقے سے نافذ کیا جا رہا ہے۔ حکمران جماعت بی جے پی کی بانی تنظیم آر ایس ایس کے پاس چھ لاکھ ’رضاکاروں‘ پر مشتمل ایک ملیشیا ہے۔‘
پاکستانی مندوب نے کہا کہ ’آر ایس ایس کے ایک رکن نے مہاتما گاندھی کو قتل کر دیا جب کہ ان کے اس قاتل کا مزار بنایا گیا ہے۔ درحقیقت آر ایس ایس نے مسلمانوں کے خلاف تشدد اور نفرت کے تحت ہی بی جے پی کے اقتدار میں آنے کی راہ ہموار کی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ 1992 میں آر ایس ایس کے زیرقیادت عسکریت پسندوں نے ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کو تباہ کر دیا اور ایودھیا اور بمبئی میں ایک ہزار سے زیادہ مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ 2002 میں بھی گجرات میں دو ہزار سے زیادہ مسلمان مردوں، خواتین اور بچوں کو بے رحمی سے قتل کیا گیا جہاں نریندر مودی وزیر اعلیٰ تھے۔ اسی طرح اپریل 2020 میں بھی نئی دہلی میں دنیا کی نظروں کے سامنے بے شمار مسلمانوں کو سرکاری ملی بھگت سے قتل کیا گیا۔
بقول منیر اکرم: ’مسلمانوں اور مسیحیوں کے خلاف منظم طریقے سے جبر کیا جا رہا ہے۔ جہاں ایک شہریت کے متنازع قانون کے ذریعے مسلمانوں کو شہریت سے خارج کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ ان امتیازی قوانین کے خلاف احتجاج کو بے دردی سے دبا دیا گیا ہے۔ گائے کے تحفظ کی آڑ لیتے ہوئے سرکاری سرپرستی میں پرتشدد ہجوم مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں۔ نام نہاد لو جہاد کے نعروں کے ساتھ مسلمان مردوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ انتہا پسند ہندو گروپوں نے واضح طور پر مسلمانوں کے خلاف نسل کشی کا مطالبہ کیا ہے جبکہ جینوسائیڈ واچ تنظیم نے انڈیا کے ساتھ ساتھ انڈیا کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کے امکان سے خبردار کیا ہے۔‘
منیر اکرم نے کہا کہ ’ابھی پچھلے ہفتے ہی وزیر اعظم مودی نے خود مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کو ہوا دی اور انہیں ’درانداز‘ قرار دیا۔‘
منیر اکرم نے مزید کہا کہ ’دو روز قبل پاکستان کے وزیر خارجہ نے سلامتی کونسل کے ساتھ ساتھ سیکرٹری جنرل اور جنرل اسمبلی کے صدر کو انڈیا کی جانب سے پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ کی مہم سے آگاہ کیا۔ یہ ماورائے عدالت قتل اور ریاستی دہشت گردی صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے۔ اسے کینیڈا میں اپنے سیاسی مخالفین کی ٹارگٹ کلنگ تک توسیع دی گئی ہے اور امریکہ اور شاید دوسرے ممالک میں بھی ایسی کوششیں کی گئی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’واشنگٹن پوسٹ نے رپورٹ کیا کہ وزیراعظم مودی نے گذشتہ ہفتے اپنے حامیوں سے خطاب میں کہا کہ آج انڈیا کے دشمن بھی جانتے ہیں کہ یہ مودی (کا) اور نیا انڈیا ہے۔ یہ نیا انڈیا آپ کے گھر میں گھس کر مارتا ہے۔‘
پاکستانی مندوب نے مزید کہا کہ ’یہ نیا انڈیا ایک خطرناک ملک بن چکا ہے۔ یہ سلامتی کی بجائے عدم تحفظ کا باعث ہے۔ اس کا تکبر، جارحانہ رویہ اور احتساب سے بالاتر ہونے کا احساس علاقائی اور عالمی تنازعات کو ہوا دے سکتا ہے۔‘
اس سے قبل دسمبر میں امریکہ میں مذہبی آزادی پر نظر رکھنے والے ادارے نے صدر جو بائیڈن انتظامیہ سے ’درخواست‘ کی تھی کہ وہ مذہبی اقلیتوں کو مبینہ طور پر نشانہ بنائے جانے پر انڈیا کو ’خاص طور تشویش ناک صورت حال کا حامل ملک‘ قرار دے۔
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف)، جو وفاقی حکومت کا خود مختار ادارہ ہے، کا کہنا تھا کہ انڈین حکومت کی جانب سے بیرون ملک سرگرم کارکنوں، صحافیوں اور وکلا کو خاموش کروانے کی حالیہ کوششیں مذہبی آزادی کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔
کمیشن نے ایک بیان میں کہا تھا: ’یو ایس سی آئی آر ایف امریکی محکمہ خارجہ سے درخواست کرتا ہے کہ انڈیا کی جانب سے مذہب یا عقیدے کی آزادی کی منظم، جاری اور سنگین خلاف ورزیوں کی بنا پر انڈیا کو خصوصی تشویش کا حامل ملک قرار دیا جائے۔‘
کمشنر ڈیوڈ کری نے نشاندہی کی کہ کینیڈا میں سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل اور امریکہ میں سکھ علیحدگی پسند رہنما گرپتونت سنگھ پنوں کے قتل کی ایک اور سازش میں انڈین حکومت کے ملوث ہونے کے الزامات ’انتہائی پریشان کن‘ ہیں۔
یو ایس سی آئی آر ایف کے عہدے داروں نے 2020 کے بعد سے ہر سال انڈیا کے خلاف سفارشات پیش کی ہیں۔ 1998 کے مذہبی آزادی کے امریکی ایکٹ کے تحت انڈیا کو نامزد کیا گیا۔
اس قانون کے تحت کسی ملک کے بارے میں مختلف پالیسی ردعمل دیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر پابندیوں کا نفاذ یا چھوٹ، تاہم یہ پابندیاں خود بخود نہیں لگتیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی انتظامیہ ہندو اکثریتی ملک میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک کی بارہا تردید کر چکی ہے۔