بلوچستان کا 2030 تک سب بچوں کو سکول میں داخل کرنے کا ’مشکل‘ ہدف

صوبائی وزیر تعلیم راحیلہ درانی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں اعتراف کیا کہ ’یہ بہت بڑا ہدف ہے تاہم ہم ایک کوشش تو کر سکتے ہیں۔‘

حکومت بلوچستان نے 2030 تک صوبے میں کوئی بچہ سکول سے باہر نہ رکھنے کا ہدف اپنے لیے مقرر کیا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں صوبائی وزیر تعلیم راحیلہ درانی نے اعتراف کیا کہ یہ ایک مشکل ہدف ہے۔ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک بڑا ہدف ہے۔ ہمیں دیگر صوبوں نے بھی بتایا کہ یہ مشکل ہے۔ تاہم ہم ایک کوشش تو کر سکتے ہیں۔‘

پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں محکمہ تعلیم کے اندازوں کے مطابق اس وقت 29 لاکھ سے زائد بچے اور بچیاں سکول نہیں جاتیں۔

ڈائریکٹر ایجوکیشن فار ڈویلپمنٹ اینڈ مانیٹرنگ کا کہنا ہے کہ ’2023 کی مردم شماری کے مطابق صوبے میں سکول جانے کی عمر کے بچوں کی تعداد تقریباً 52 لاکھ سے زیادہ ہے جن میں سے تقریبا 22 لاکھ کے قریب سکول جاتے ہیں۔

بلوچستان میں 11 لاکھ بچے سرکاری، سات لاکھ نجی سکولوں جبکہ تین لاکھ سے زائد بچے نیم سرکاری اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔

صوبائی وزیر کے مطابق ’حیران کن پہلو یہ بھی ہے کہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں تین لاکھ بچے سکول نہیں جاتے ہیں۔

سکول نہ جانے والے بچوں کے داخلے کے لیے گذشتہ برس ستمبر میں مہم شروع کی گئی تھی۔‘

صوبہ بلوچستان پاکستان کا رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑا صوبہ ہے لہٰذا وہ محکمہ تعلیم کے لیے اس ہدف کے حصول کو مزید مشکل بناتا ہے، پھر صوبے میں جاری شورش بھی اسے مزید مشکل بناتی ہے تاہم صوبائی حکام پرعزم ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صوبائی وزیر تعلیم راحیلہ حمید خان درانی کا کہنا تھا کہ ’وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی تو اسے دو سال پہلے حاصل کرنے کے خواہش مند تھے۔ ’بہرحال یہ ہمارا جذبہ ہے اور وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی تعلیمی ایمرجنسی لگائی ہے اور اس پر مشاورت بھی ہوئی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ان سکول نہ جانے والے بچوں میں سے 80 فیصد کبھی سکول گئے ہی نہیں۔ یہ ایک اہم بات ہے جسے کوئی سمجھ نہیں رہا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان جغرافیائی اعتبار سے کافی پھیلا ہوا ہے، آبادی بھی دور دور ہے۔ بچیوں کا سکول سے ڈراپ آؤٹ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔‘

راحیلہ درانی نے کہا کہ ’غربت بھی ایک بڑی وجہ ہے کیونکہ والدین ان کے بچوں کا خرچہ برداشت نہیں کرسکتے۔‘

اس رجحان کی حوصلہ شکنی کے لیے جس میں بچیاں آٹھویں جماعت کے بعد سکول چھوڑ دیتی ہیں، راحیلہ کا کہنا تھا کہ ’وہ ایسی طلبہ کے لیے ٹرانسپورٹ کا بھی بندوبست کر رہی ہیں۔‘

ماہرین تعلیم بلوچستان میں تعلیمی پسماندگی کی ایک اور بڑی وجہ اساتذہ کی شدید کمی بھی بتاتے ہیں جس کے لیے بھرتیاں بھی جاری ہیں۔

صوبائی وزیر تعلیم نے بتایا کہ ’حکومت غیر حاضر اساتذہ کے خلاف بھی سخت اقدامات اٹھائے رہی ہے۔ ’متعدد اساتذہ کو نوکریوں سے برخاست، تنخواہ میں کٹوتی اور جواب طلبی جیسی سزائیں دی گئیں۔‘

راحیلہ حمید خان درانی پیشے کے اعتبار سے ایک وکیل اور سیاست دان ہيں۔

وہ دسمبر 2015 میں بلوچستان صوبائی اسمبلی کی پہلی خاتون سپیکر منتخب ہوئیں تھیں۔ انہوں نے بلوچستان میں خواتین کے حقوق اور انسانی بہبود کے لیے ایک معروف نام سمجھا جاتا ہے۔

حکومت پاکستان نے انہیں تمغہ امتیاز سے بھی نوازا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل