کابل بمقابلہ قندھار گروپ: افغانستان میں نئی رسہ کشی؟

حالیہ دنوں میں ایسے اشارے ملے ہیں کہ افغان طالبان تحریک کے اندر ’سب اچھا نہیں ہے۔‘

اسلام آباد میں سفارتی حلقے بھی اس تردید سے متفق نہیں اور اب تک کے سنگین اختلافات کی خبر دیتے ہیں (اے ایف پی)

افغانستان میں طالبان اسلامی تحریک کو دوسری مرتبہ اقتدار میں آئے تین سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہے۔ پورے ملک پر ان کی گرفت مضبوط دکھائی دیتی ہے لیکن تحریک کے اندر کا حال کچھ زیادہ اچھا محسوس نہیں ہو رہا؟ آخر ماجرا ہے کیا؟

طالبان برسوں سے بیرونی دنیا کے سامنے ایک متحدہ محاذ کے طور پر اپنے آپ کو پیش کرتے رہے ہیں۔ ان کی صفوں میں اختلاف رائے کم ہی سامنے آیا ہے۔

لیکن حالیہ دنوں میں ایسے اشارے ملے ہیں کہ افغان طالبان تحریک کے اندر ’سب اچھا نہیں ہے۔‘

میڈیا رپورٹس کے مطابق طالبان کی قیادت میں اختلافات کی خبریں سامنے آئی ہیں۔ طالبان ان خبروں کی سختی سے تردید کر رہے ہیں۔ تاہم مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر سپیسز میں تسلیم کیا کہ اگرچہ تحریک کی قیادت میں نظریاتی اختلافات موجود ہیں لیکن یہ جھگڑے کسی سنگین اختلاف کی علامت نہیں۔

انہوں نے کہا ان کے درمیان نظریاتی اختلافات معمول کی بات ہیں۔ اسلامی امارت کا ہر رکن کسی بھی مسئلے کو اپنے نقطہ نظر سے دیکھتا ہے اور بعض اوقات یہ معاملات میڈیا تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔ تاہم، ان کے درمیان کوئی جھگڑے نہیں ہے۔

اسلام آباد میں سفارتی حلقے بھی اس تردید سے متفق نہیں اور اب تک کے سنگین اختلافات کی خبر دیتے ہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو نے اس مسئلہ پر طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے جواب نہیں دیا۔

آئیں دیکھیں اختلاف کی نوعیت کیا ہے؟

چند اہم طالبان رہنما کافی عرصے سے ایسے بیانات دیتے رہے وزیر داخلہ اور حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی نے دو سال پہلے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ

’اپنی رائے اور فکر کو عوام پر مسلط نہیں کرنا چاہیے۔ سارے نظام کو چیلنج کرنا، ہدف اور یرغمال بنانا درست نہیں ہے۔‘

اسی طرح طالبان کے نائب وزیر اعظم عبدالسلام حنفی نے بھی تعلیمی اداروں کی بہتری کے حوالے سے قیادت پر تنقید کی تھی۔ کابل یونیورسٹی میں ایک اجلاس میں انہوں نے کہا کہ مفتی کا فرض صرف یہ نہیں کہ بتائے کہ ’حرام‘ کیا ہے بلکہ جب وہ کسی چیز سے منع کرتا ہے تو اسے اس کا متبادل بھی فراہم کرنا چاہیے۔

پھر نائب وزیر خارجہ شیر محمد عباس ستانکزئی سب سے زیادہ خبروں کی زینت بنے جب انہوں نے خواتین کی تعلیم پر پابندی کی مخالفت کی۔ پھر ان کی ایک آڈیو ریکارڈنگ بھی سامنے آئی جس میں شیر محمد عباس ستانکزئی کہہ رہے ہیں کہ رہنما کی پیروی کریں لیکن اس حد تک نہیں کہ خدانخواستہ آپ انہیں نبوت کا درجہ دے دیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان بیانات کی وجہ سے انہیں جنوری میں ملک چھوڑنا پڑا تاہم طالبان کے مطابق وہ اپنی مرضی سے گئے ہیں اور جلد واپس لوٹیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

متحدہ عرب امارات میں اپنی موجودگی کی تصدیق کرتے ہوئے عباس سٹانکزئی نے کہا کہ وہ علاج کی غرض سے وہاں گئے ہیں۔

اس سے قبل دسمبر میں طالبان کے وزیر برائے پناہ گزینہ خلیل حقانی ایک خودکش حملے میں جان کھو بیٹھے جو طالبان سخت گیر اسلامی گروپ کے اقتدار میں آنے کے بعد سے مارے جانے والے سب سے سینیئر عہدیدار ہیں۔ حقانی گروپ کے کئی لوگ اس موت کا الزام مخالف طالبان پر لگاتے ہیں۔

ادھر سراج حقانی 23 جنوری کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے دورے پر جانے کے بعد سے واپس کابل نہیں لوٹے ہیں۔ بی بی سی نے ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ وہ علاج اور آرام کے لیے ابھی تک افغانستان سے باہر ہیں۔ ان ذرائع نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کہاں ہے لیکن صرف اتنا کہا کہ آس پاس ہیں۔

ان کی غیرموجودگی میں وزارت داخلہ کے اہم امور ان کے نائبین سرانجام دے رہے ہیں۔ 

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے سراج الدین حقانی کو 23 جنوری سے 3 فروری تک عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب جانے کے لیے سفری استثنیٰ دے دیا تھا، تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ کیا اس سفری استثنیٰ میں مزید توسیع دی گئی ہے یا نہیں۔

اسلام آباد میں سفارتی ذرائع نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سراج الدین حقانی کے لوگ بھی کابل سے نکل چکے ہیں جبکہ ہیبت اللہ اپنے مزید جنگجو لا رہے ہیں۔

ان کے علاوہ نائب وزیر اعظم ملا عبدالغنی برادر بھی کئی ہفتوں سے ملک سے باہر ہیں۔

ان اطلاعات میں طالبان امیر ہبت اللہ اخوند قندھار میں موجود ہیں اور اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھے ہوئے ہیں۔ گذشتہ دن بھی وہ مختلف صوبائی گورنروں سے ملے ہیں۔

موجودہ حالات میں لگتا ہے کہ بعض طالبان رہنما ان کی حکومت کو تسلیم کرنے کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے اور سرمایہ کاری لانا چاہتے ہیں جبکہ سخت گیر رہنما عالمی تنہائی کے باوجود سخت اسلامی حکمرانی کے نفاذ کو ترجیح دیتے ہیں۔

طالبان حکومت کو اس وقت شدید معاشی مسائل درپیش ہیں۔ عام افغان مسائل کا حل مانگتا ہے ایسے میں یہ اندرونی اختلافات مزید مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔

اگر طالبان ان مشکلات کو حل نہ کر سکے تو مبصرین مانتے ہیں کہ افغانستان ایک اور مشکل دور میں داخل ہو سکتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر