کرن کو بہت اچھی طرح سے وہ دن یاد ہیں جب وہ تتلیوں کی طرح اپنے گھر کے کمروں میں اڑتی پھرتی تھیں۔ وہ کمرے جن میں مخمل کے گاؤ تکیے اور بہت ہی نفیس ایرانی قالین ہوا کرتے تھے، وہ کمرے جن میں ماہر ترین موسیقار بیٹھا کرتے تھے اور وہ کمرے جہاں پاکستان بھر سے آئے بااثر لوگ مہذب انداز میں بیٹھا کرتے تھے۔
اب دوران سفر کرن کا ساتھی ایک پرانا سا ٹیپ ریکارڈ اور گانوں کی چند سی ڈیز ہوتی ہیں۔ کرن کو چند ایسے لوگوں کے آگے ان کی دھنوں پر ناچنا ہوتا ہے جنہیں صرف ایک چیز چاہیے ہوتی ہے، ‘سیکس’۔
‘پرانے وقتوں میں یہ ناچنے گانے اور موسیقی سے کہیں زیادہ آرٹ کا معاملہ ہوا کرتا تھا، لوگ کلچرڈ ہوا کرتے تھے، اب ایک دو گانوں کے بعد ہر آدمی سیدھا بستر پر جانے کی سوچتا ہے۔’ 28 سالہ کرن نے یہ سب باتیں اس شرط پر بتائیں کہ ان کا نام ظاہر نہیں کیا جائے گا اور بہ امر مجبوری ان کے نام کا دوسرا حصہ استعمال کیا جائے گا۔
کرن لاہور کی اس مرتی ہوئی تہذیب کا حصہ ہیں جو طویل عرصے تک لاہور کی پہچان ہوا کرتی تھی۔ وہ پیشہ جو کبھی عزت دار اور باوقار سمجھا جاتا تھا اور جہاں رقاصائیں کئی سو برس تک راج درباروں میں شاہی مہمانوں کے سامنے رقص کیا کرتی تھیں۔
جنسی استحصال کئی صدیوں سے رقاصاؤں کے لیے ایک سنجیدہ مسئلہ رہا ہے۔ خاص طور پر ان ناچنے والیوں کے لیے جو کرن کی طرح 14 سال کی عمر سے اپنا پیشہ شروع کر دیتی ہیں۔ یہاں پرفارمنس اور کبھی کبھار قائم ہونے والے جنسی تعلقات کے درمیان نہایت دھندلی سی ایک دیوار موجود ہے۔
لیکن ان سب معاملات کے باوجود رقاصاؤں کو بالعموم معاشرے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ قابل فنکاروں کو لوگوں کی محبت بھی حاصل ہوتی تھی۔ تماشائیوں میں سے چند لوگ ہی ان سے متمتع ہوسکتے تھے۔ جسمانی تعلقات کے معاملے میں ان کا معاشرتی مقام تقریبا وہی ہوتا تھا جو درجہ جاپان میں گیشیاؤں کو دیا جاتا تھا۔
چند دہائیوں سے پاکستان کی بڑھتی مذہبی قدامت پسندی نے ہر قسم کے آرٹ کو تقریبا زندہ دفن ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔
ان عورتوں کو رقص کرنے کے لیے اب کوئی جگہ میسر نہیں ہے۔ ان کا روزگار چھن چکا ہے اور ان میں سے کئی اب پیٹ پالنے کے لیے جسم فروشی پر مجبور ہیں۔ یہ افسوس ناک نتیجہ مذہبی انتہا پسندوں کی اخلاقی پابندیاں کے بعد ہی سامنے آیا ہے۔
‘رقص کرنے کے لیے حالات بہت زیادہ خطرناک ہو چکے ہیں اور دیکھنے والے بھی اب وہ نہیں رہے۔ ایک زمانے میں بہت پیسے والے اور فن کے قدردان مہذب لوگ ہمیں بطور تماشائی دیکھنے کے لیے آیا کرتے تھے۔ اب ان کے بدلے صرف وہ لوگ رہ گئے ہیں جو سیکس کو بھی ہمارے پیشے کا حصہ سمجھتے ہیں’۔
اس فن کو مغربی دنیا ناچ NAUTCH کے نام سے جانتی ہے۔ مغلوں کے دور میں شروع ہوا یہ فن انیسویں صدی تک اپنے عروج پر تھا۔ تاریخ دانوں کے مطابق امیر گھروں کی لڑکیاں رقص اور تہذیب سیکھنے کے لیے ان گھرانوں میں جایا کرتی تھی۔
کیتھرین بٹلر (جو ہندوستانی موسیقی کی ماہر اور کنگز کالج میں سینئر لیکچرار ہیں) کے بقول یہ رقاصائیں نہ صرف فنی طور پر مضبوط ہوا کرتی تھیں بلکہ ان کے پاس بہت زیادہ سیاسی اثرورسوخ اور مالی وسائل بھی ہوا کرتے تھے۔ عموماً اشرافیہ ہی میں ان کی شادی یا نکاح بھی ہوا کرتے تھے۔
جب 1858 میں کمپنی کی حکومت قائم ہوئی تو برصغیر میں رقاصاؤں کو معاشرتی طور پر کچھ پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن یہ روایت بہرحال چلتی رہی۔
1947 میں ہونے والی تقسیم اور ہندو مسلم فسادات کے بعدکے بعد بہت سی مسلمان رقاصائیں سرحد پار کرکے لاہور آگئیں۔ وہ لاہور جواب ثقافتی طور پر پاکستان کا دارالحکومت تھا۔
یہاں اس فن نے ایک نیا عروج دیکھا۔
پرانے لاہور کی دیواروں سے جڑی ہیرا منڈی کی تنگ گلیاں ایک زمانے میں رقاصاؤں، موسیقاروں اور تماش بینوں کے لیے موتیے اور گیندے کے گجرے بیچنے والے بچوں سے بھری ہوا کرتی تھی۔
رقص دیکھتے ہوئے اگر کوئی تماشائی جذبات سے مغلوب ہو جاتا تو وہ اپنے ہاتھ پر بندھا ہوا گجرا سونگھ لیتا اور ایک گہری سانس بھر کر اپنے جذبات قابو میں رکھنے کی کوشش کرتا۔
اگر تماشائی کسی رقاصہ کے گلے میں ڈھیر سارے پھولوں کے ہار لاد دیتا تو یہ اس چیز کی نشانی ہوتی کہ گاہک اب مستقل آتا رہے گا۔ اگر گاہک جنسی تعلقات کا خواہاں ہوتا تو اسے ایک طویل سلسلہ جنبانی سے گزرنا پڑتا جس میں قیمتی تحائف دینے کی رسم بہت اہم ہوا کرتی تھی۔
ہیرا منڈی میں رہنے والی شگفتہ بیگم کا شجرہ کئی پشتوں تک خاندانی رقاصاؤں سے بھرا ہے۔ ان کی نانی تقسیم سے پہلے مہاراجہ پٹیالہ کے دربار میں شاہی رقاصہ تھیں۔
شگفتہ بیگم پینسٹھ برس کی عمر میں اب ناچ گانا نہیں کرتیں لیکن انہیں وہ دن یاد ہیں جب وہ اور ان کی والدہ نوابانہ ٹھاٹھ باٹھ کے مالک تھے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان دنوں جسم فروشی میں کوئی زیادہ پیسے نہیں ہوا کرتے تھے رقص ہی کو سب کچھ سمجھا جاتا تھا۔
دو دہائیوں تک شگفتہ بیگم ایک ہی تماشبین کے ساتھ تعلق میں رہیں جو آخرکار ان کے بچوں کے باپ بھی ٹھہرے۔
اپنی چھت سے بادشاہی مسجد پر ایک نظر ڈالتے ہوئے شگفتہ بیگم نے چائے کا ایک گھونٹ بھرا اور کہنے لگیں، ‘میں ان دنوں کو بہت زیادہ یاد کرتی ہوں جب میں ایک مصروف عورت تھی اور لوگ دور دراز کے علاقوں سے مجھے دیکھنے آیا کرتے تھے۔ اب میں یہاں بیٹھی رہتی ہوں اور سامنے اس مسجد کو دیکھا کرتی ہوں’۔
بادشاھی مسجد سے جڑا لاہور کا یہ خطہ اس شاندار ماضی کی یاد دلاتا ہے جب ہر قسم کی تہذیبی سرگرمیاں جاری رکھنا ممکن تھا۔ برداشت اور رواداری بھی ایک اہم معاشرتی قدر سمجھی جاتی تھی۔ جب دھرتی کے باسیوں کی چھوٹی موٹی تفریح اور اسلام کی درخشاں روایات آپس میں متصادم نہیں ہوا کرتے تھے۔
لیکن جب پاکستان میں بنیاد پسندی پڑھیں اور پاکستان نے اپنا تشخص ایک اسلامی جمہوریہ کے طور پر بنانا شروع کیا تو ان رقاصاؤں پر معاشرتی دباؤ کے ساتھ ساتھ مشکلات کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔
پرانی درباری تہذیب نئے پاکستان کے جدید اصولوں اور نئی روایات سے لگا نہیں کھاتی تھی۔ بٹلر سکوفیلڈ کے مطابق رقاصائیں اب منظرعام سے غائب ہوچکی ہیں اور ہیرا منڈی محض قحبہ گیری کا ٹھکانہ بن چکا ہے۔
پاکستان میں شراب پر 1977 میں پابندی لگ گئی۔
ضیاء الحق جیسے مذہبی رجعت پسند عناصر 1978 میں اقتدار میں آئے۔ اس کے بعد تفریح کے بہت سارے مواقع گناہ قرار دے کر آہستہ آہستہ ختم کر دئیے گئے۔
پولیس اگر ان دنوں رقاصاؤں کو گلی میں گھومتے پھرتے دیکھتی تو وہ انہیں جرمانے کر دیا کرتی، ان کے اوقات کار بھی محدود تر کر دیے گئے۔ ان کی وہ کھڑکیاں اور جھروکے جہاں سے موسیقی کے خوبصورت راگ ساری رات نیچے گلی میں گزرنے والوں کو مسحور کیا کرتے تھے، وہ کھڑکیاں بند ہو گئیں اور انہیں موٹے پردوں سے ڈھک دیا گیا۔ یہ سب جرمانوں کا خوف تھا۔
1990 کی دہائی تک پاکستان میں مذہبی شدت پسندی اپنا زور پکڑ چکی تھی اور انتہا پسند لوگ باآسانی ہیرا منڈی جا کر خواتین اور رقاصاؤں کو ڈراتے دھمکاتے تھے۔
اپنے تین بھائیوں، ان کی بیویوں اور اپنے بچوں کی واحد کفیل کرن نے بطور رقاصہ اس وقت کام شروع کیا جب پاکستان میں یہ مذہبی شدت پسندی بہت زیادہ پھیل چکی تھی۔
وہ نجی محفلوں میں ڈانس کرکے ایک مہینے میں تقریبا 70 سے 80 ہزار روپے کما لیتی ہیں۔ اگر ڈانس کے بعد وہ جسمانی تعلقات بھی قائم کریں تو یہ رقم اس سے دوگنی ہوجاتی ہے۔
کرن پہلے ہیرا منڈی میں ایک کوٹھے پر رقص کیا کرتی تھی لیکن مذہبی شدت پسندوں کے چھاپوں کے بعد وہ کوٹھا بند کردیا گیا۔ اب دوسری بہت سی ہیں رقاصاؤں کی طرح وہ اپنے گھر پر بیٹھی رہتی ہیں اور گاہکوں کی فون کال کے انتظار میں ہوتی ہیں۔ کرن کہتی ہیں:
‘وہ دن مجھے بہت زیادہ یاد آتے ہیں جب ہیرا منڈی میں ہر وقت چہل پہل ہوتی تھی اور ایک چکاچوند نظر آتی تھی۔ ہر گھر سے موسیقی کے دریا بہہ رہے ہوتے تھے’۔
ستاسٹھ سالہ ہارمونیم نواز نوید حسین کہتے ہیں: ‘ہم موسیقار کہلائے جاتے تھے۔ لوگ ہماری عزت کرتے تھے اور ہمارے فن کو دل سے پسند کیا کرتے تھے’۔
بہترین رقاصائیں آج کل دبئی کا رخ کرتی ہے جہاں پاکستانی اور ہندوستان سے آئے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد اب بھی فن کی قدردان ہے۔ ان کے علاوہ ایسی رقاصائیں باآسانی دبئی جا سکتی ہیں جن کے پاس دولت ہو یا پھر جن کے تعلقات بڑے لوگوں سے ہوں۔
ایک وقت میں ہیرا منڈی کے اندر پچاس سے زیادہ کلاسیکل ڈانس سکھانے کے اکیڈمیاں ہوا کرتی تھی اب شاید ایک ہی باقی بچی ہے، اس کا نام کلاسیکل ڈانس اکیڈمی ہے۔
وہاں ڈانس سکھانے والے ایک استاد یاسر حسین عباس کہتے ہیں کہ یہ اکیڈمی پینتیس برس پہلے بنائی گئی تھی اور سینکڑوں کی تعداد میں لڑکیاں یہاں سے سیکھ کر آگے نکلی ہیں۔ فی الوقت یہاں صرف چھ لڑکیاں رقص سیکھ رہی ہیں۔
ان کے مطابق، ‘میری زیادہ تر شاگردیں اس وقت دبئی اور امریکہ جا چکی ہیں۔ حکومت اس کام کو نری بے ہودگی سمجھتی ہے۔ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ یہ بھی ایک فن ہے اور اسے کسی دوسری چیز کے ساتھ خلط ملط نہیں کرنا چاہیے’۔
عباس کے مطابق وہ اور ان جیسے کئی استاد اب بھی اس فن کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ اگر یہ کوشش بھی ترک کردی گئی تو فن رقص کے نام پر پاکستان میں باقی کچھ بھی نہیں بچے گا۔