کیا خواتین، خاص طور پر خطرے سے دوچار خواتین کو یہ حق حاصل ہے کہ انہیں ریپ نہ کیا جائے؟ ایک جج کے حالیہ فیصلے کے مطابق ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ’یہ ضروری نہیں‘۔
جنسی عمل سے محفوظ طریقے سے انکار کے حق کے مقابلے میں جنسی عمل کا حق ہمارے بہت سے قانون سازوں کے لیے بظاہر کانٹوں سے بھرا راستہ رہا ہے۔
برطانیہ میں ایک تازہ مقدمہ جس کی سماعت مسز جسٹس رابرٹس نے کی، میں یہ سامنے آیا ہے کہ آٹزم (ذات میں گم رہنے کا مرض) میں مبتلا ایک 36 سالہ مریض ’جے بی‘ جو کمزور قوت ارادی کے مالک ہیں، سیکس ان کا بنیادی حق ہے۔ چاہے اس میں معاملہ ایسی خاتون کا ہی کیوں نہ ہو جو خود بھی جے بی کی طرح کے مرض کی شکار ہوں اور اجازت دینے (یا واپس لینے) کے قابل نہ ہوں۔
جے بی، سیکس کے لیے رضامندی کا مطلب نہیں سمجھتے، اس لیے یہ سمجھا گیا ہے کہ اگر وہ ممکنہ طور پر لکیر پار کر لیں تو قانونی طور پر انہیں ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جانا چاہیے۔
ظاہر ہے یہ ایک نازک معاملہ ہے۔ جے بی کی معذوریوں، ان کی خوش رہنے کی خواہش اور جنسی آسودگی سے معمور تعلقات جو ہم میں سے بہت سے لوگ عام سی بات سمجھتے ہیں، کے پیش نظر اس معاملے پر بحث کی ضرورت ہے۔
یہ بات بے حد مایوس کن ہے کہ کوئی وہی خواہشات رکھے جو بہت سے لوگ رکھتے ہیں اور اس کے باوجود اس میں تصورات کو سمجھنے اور ان پر عمل درآمد کی صلاحیت نہ ہو اور ایسا ہونے میں اس کا اپنا کوئی قصور بھی نہ ہو۔
ہمیں دیانت داری سے کام لینا ہوگا، بہت سے لوگ جو جے بی جیسی کمزوریوں میں مبتلا نہیں ہیں وہ بھی ان خواہشات کو پورا کرنے کے لیے ہاتھ پیر مارتے ہیں۔
لیکن اس سے اتفاق کا کیا جواز ہو سکتا ہے کہ ایک ایسے فرد کو جو جنسی حملے کے اعتبار سے خواتین کے لیے ’ہلکا سا خطرہ‘ ہو اسے ایسا کرنے کی کھلی چھٹی دے دی جائے؟
یہ یقینی امر ہے کہ آج کے معاشرے میں مرد کے لیے ایسے راستے موجود ہیں جن کے ذریعے ریپ کا خطرہ پیدا کیے بغیر جنسی خواہشات کی تکمیل کی جا سکتی ہے؟
اس ضمن میں ایک سمجھوتے کی ضرورت ہوگی جو بدقسمتی ہے لیکن یہ کسی دوسرے فرد کی صحت اور خوشی کی قربانی کے مقابلے میں قابل ترجیح ہے۔
اس طرح کے کیسوں کے اس قدر نقصان دہ ہونے کی وجوہات میں ایک وجہ یہ تجویز کرنا ہے کہ سیکس کے بغیر گزارہ کرنے کے مقابلے میں ریپ چھوٹا مسئلہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میرا مطلب ہے کہ حقیقت میں جج نے یہ کہا ہے کہ اگر جے بی، کسی خاتون کی مرضی کے بغیر بھی اس کے ساتھ سیکس کرلیں (جو کسی بھی قانون کے تحت ریپ ہے) تو انہیں مجرم نہیں کہا جائے گا کیونکہ ان کا حق اتنا ہی مضبوط ہے۔
آپ دائیں بازو کے کسی اخبار کے اظہارِ رائے والے حصے میں اس طرح کے نکتہ نظر کی توقع کر سکتے ہیں لیکن یہ یقینی ہے کہ ایک عدالت میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
میں صرف اس نتیجے پر پہنچ سکی ہوں کہ مسز جسٹس رابرٹس ریپ کا شکار ہونے والی بہت سی خواتین کو نہیں جانتیں۔ پیٹربورو ریپ کرائسس کیئر گروپ کی وائس چیئرپرسن اور ’سروائیورز سٹوریز‘ (اس ویب سائٹ پر جنسی تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین کی کہانیاں ان کے اپنے الفاظ میں بیان کی گئی ہیں) کی بانی کی حیثیت سے میں ایسی خواتین کو جانتی ہوں۔
اس کے باوجود ابھی مجھے ایک ایسے مرد سے ملنا ہے جن کی جنسی عمل کی خواہش انہیں خود کو نقصان پہنچانے، خود کشی کی کوشش یا کئی دہائیوں تک اذیت ناک یادوں کی طرف لے گئی۔
میں ایسی خواتین سے ملی ہوں جو کسی پر اعتبار نہیں کر سکتیں۔ جنہوں نے ماں بننے کے خواب دیکھنے چھوڑ دیے ہیں کیونکہ وہ ایک صحت مند تعلق قائم کرنے کا سوچ تک نہیں سکتیں۔
ایسی خواتین کو بھی جانتی ہوں جنہوں نے جنسی تشدد کا نشانہ بننے کے بعد اپنے اوپر مرتب ہونے والے اثرات کی وجہ سے ملازمت، یونیورسٹی کورسز اور تعلقات ترک کر دیے۔
بلاشبہ صرف خواتین کو ہی ریپ نہیں کیا جاتا۔ ریپ کا شکار مردوں کے لیے کیسا ملا جلا پیغام ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کسی دوسرے مرد کی جنسی عمل کی خواہش، رضامندی سے انکار کے مرد کے حق کے مقابلے میں زیادہ بڑی ترجیح ہے۔
اس نئے مقدمے میں جج نے ممکنہ طور پر سب سے زیادہ تکلیف دہ حصے پر غور نہیں کیا۔ بات اتنی ہے کہ جج نے تسلیم کیا ہے کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ خواتین جن پر جے بی حملہ کرسکتے ہیں وہ اپنے طور پر حملے کا نشانہ بنیں گی۔ جبکہ ایک معذور مرد کے لیے یہ پیغام نقصان دہ ہو سکتا ہے کہ انہیں جنسی عمل کے لیے دوسرے امکانات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ یقینی ہے کہ ایک معذور خاتون کا یہ کہنا کہ انہیں زیادتی کا نشانہ بنانا مکمل طور پر قانونی ہے اور یہ کہ ریپ کا نشانہ بننے کے بعد انہیں عدالتی تحفظ تک نہیں ملے گا، کہیں بڑھ کو نقصان دہ ہے؟
یہ بہت مشکل ہے کہ ایک اور مقدمہ یاد نہ دلایا جائے جس میں جج نے فیصلہ دیا تھا کہ ایک مرد کا یہ ’بنیادی انسانی حق‘ ہے کہ وہ اپنی ایسی بیوی سے سیکس کرے جو مشکلات کا شکار ہو۔
دونوں کے معاملے میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ دیا گیا ہے کہ تنظیمی ڈھانچے میں مردوں کے حقوق کو عورتوں کے حقوق پر فوقیت حاصل ہے۔ خاص طور پر معذوری کا شکار خواتین کو کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے۔
© The Independent