خیبر پختونخوا کابینہ کا تاریخ میں پہلی مرتبہ خیبر میں اجلاس

قبائلی علاقوں کا اعتماد بڑھانے کی خاطر اجلاس لنڈی کوتل میں منعقد ہوا لیکن بعض لوگ یہی سوال اٹھا رہے ہیں کہ کچھ فرق پڑے گا یا نہیں

لنڈی کوتل میں صوبائی کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ بھی دی گئی۔

”قبائلی عوام  کے احساس محرومیوں کے ازالے” کی غرض سے  خیبر پختونخوا حکومت  نے تاریخ میں پہلی مرتبہ صوبائی کابینہ کا اجلاس 31 جنوری 2019 کو سابق قبائلی علاقے خیبر میں منعقد کیا    گیا۔

ضلع خیبر کی تحصیل لنڈی کوتل کے جرگہ ہال میں منعقد  کابینہ اجلاس کی صدارت خیبر پختونخوا کے وزیر اعلٰی محمود خان نے کی جس میں قبائلی اضلاع کی صوبے کے ساتھ انضمام کے بعد کی صورتحال، قبائلی اضلاع میں ضلعی عدالتوں کے قیام سمیت مخلتف امور پر بات چیت کی گئی۔

یہ اجلاس وزیر اعظم عمران خان کی ہدایات پر منعقد کیا گیا۔اس سے قبل پنجاب کی کابینہ نے جنوبی اضلاع میں اسی قسم کا اجلاس منعقد کیا تھا۔ وزیر اعلٰی  خیبر پختونخوا محمود خان نے اجلاس کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ قبائلی عوام سے جو وعدے کیے گئے ہیں وہ وفا کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ اجلاس اس مقصد کے لیے قبائلی ضلع میں بلایا گیا ہے کہ جو اعلانات کیے گئے ہیں ان کو عملی جامہ پہنایا جائے۔وزیر اعلٰی نے بتایا کہ ضلع خیبر کے بعد دیگر قبائلی اضلاع میں بھی کابینہ کے اجلاس کا انعقاد کیا جائے گا۔

قبائلی صحافی عبد القیوم آفریدی  نے جو اجلاس کی کوریج کر رہے تھے انڈ پینڈنٹ کو بتایا کہ اجلاس میں شرکت کرنے والے وزراء  کو مقامی لوگوں کی جانب سے  مختلف مقامات پر استقبال  بھی کیا گیا جس میں زیادہ تعداد تحریک انصاف کے کارکنان کی تھی۔

ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے کابینہ اراکین کے لیے سڑکیں بند کی گئی تھی تو انہوں نے بتایا کہ سڑکیں کھولی ہیں اور معمول کی ٹریفک بحال رہی۔

عبد القیوم نے بتایا کہ اس اجلاس کے منعقد کرنے سے قبائلی عوام میں ایک تاثر یہ ضرور جائے گا کہ انضمام کی باتیں حقیقی ہیں اور حکومت ا س معملے کو سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ انضمام سے پہلے بہت سے  قبائلی عوام  وزیر اعلٰی اور کابینہ کے لوگوں سے نا اشنا تھے کیونکہ انضمام سے پہلے صرف ایک افسر  یعنی پولیٹیکل ایجنٹ جج بھی تھا، پولیس بھی اور اس کو ایجنسی کا بادشاہ بھی کہا جاتا تھا۔

”اس قسم کے اقدامات سے قبائلی عوام میں ایک سیاسی شعور بھی اجا گر ہوگا اور لوگوں کی  سیاسی قا ئد ین اور وزرا کے ساتھ رابطہ بھی بڑھے گا۔’

تاہم  لنڈی کوتل کے رہائشی شیر عالم شنواری کا کہنا ہے کہ اس اجلاس کو قبائلی ضلع میں منقعد کرنے کا کوئی مقصد سمجھ میں نہیں آتا کیونکہ قبائلی عوام عملی طور پر کام کے منتظر ہیں۔

شیر عالم نے بتایا کہ یہ سطحی  چیزیں ہیں کیونکہ اجلاس اگر منعقد بھی ہوا تھا تو اس سے قبائلی عوام کو کیا ثمرہ ملے گا۔ انہوں نے بتایا کہ صوبائلی کابینہ بے شک امریکہ میں بیٹھ جائے لیکن کابینہ اجلاس میں ایسے فیصلے کریں کہ اگلے دن اس پر عملی کام شروع ہوجائے بجائے اس کے کہ لوگوں کو اس قسم کے اجلاس منقعد کرکے دھوکے میں رکھا جائے۔

انہوں نے عدالتی نظام کے بارے میں بتایا کہ ابھی قبائلی اضلاع بغیر کسی قانون کے چل رہے ہیں نہ وہاں پر پرانے قانون کے تحت فیصلے کیے جاتے ہیں اور نہ  نیا عدالتی نظام وہاں کئی مہینے گزرنے کے باوجود لایا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے انضمام کیے بعد مخلتف امور پر باتیں ہو رہی ہیں لیکن ابھی تک نہایت ہی اہم اور بنیادی مسائل جیسا کہ تعلیم اور صحت کے انتظامہ معاملات  کی طرف توجہ نہیں دی گئی ہے جو انضمام کے بعد قبائلی اضلاع میں عوام کو درپیش ہے۔

 کابینہ اجلاس میں مختلف فیصلے بھی کیے گئے۔صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی نے کابینہ اجلاس میں فیصلوں کے حوالے سے میڈیا بریفنگ کرتے ہوئے بتایا کہ قبائلی اضلاع میں دو ہزار طلبہ کی سکلز ڈولپمنٹ کی جائے گی۔

انہوں نے بتایا نیشنل فنانس کمیشن سے وفاق، خیبر پختونخوا اور پنجاب تین فیصد شئیر قبائلی اضلاع کو دے گا ۔شوکت یوسفزئی کے مطابق قبائلی اضلاع کے مخلتف شعبوں میں  17  ہزار ملازمین کی بھرتی کے لیے طریقہ کار میں وضع کیا جائے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان