معروف گلوکارہ جینیفر لوپیز کو پاپارازی کی جانب سے بنائی گئی اپنی تصویر انسٹاگرام پر پوسٹ کرنے پر کاپی رائٹس قانون کے تحت کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
لوپیز نےالیکس روڈریگیز کے ساتھ ہاتھ تھامے ہوئے تصویر 2017 میں اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر شیئر کی تھی، جس پر سپلیش نیوز اینڈ پکچر ایجنسی نے ان کے خلاف ڈیڑھ لاکھ ڈالرز ہرجانے کا دعویٰ کیا ہے۔
’ای نیوز‘ کو حاصل ہونے والی عدالتی دستاویزات کے مطابق پکچر ایجنسی کا دعویٰ ہے کہ یہ تصویر ان کی ملکیت تھی جس کی اشاعت کا حق صرف ان کے پاس تھا اور لوپیز نے یہ تصویر شیئر کرنے کی اجازت نہیں لی۔
عدالتی دستاویزات کے مطابق، ’مدعی نے کبھی بھی مدعا علیہ کو تصویر (کی اشاعت) کا لائسنس نہیں دیا۔ اس کے باوجود لوپیز نے ایسا کرنے کے لیے مدعی کے مختار نامہ یا اجازت کے بغیر اسے استعمال کیا۔‘
پاپارازی ایجنسی نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ 50 سالہ گلوکارہ کو دسمبر 2017 میں ایک خط کے ذریعے اس خلاف ورزی کے بارے میں بتایا گیا تھا جبکہ لوپیز کی جانب سے اس تصویر کے استعمال سے کمپنی کو اُس رقم سے ہاتھ دھونا پڑا جو اس سے کما سکتی تھی۔
کمپنی نے عدالتی دستاویزات میں مزید کہا، ’یہ تصویر تخلیقی، امتیازی اور قابل قدر ہے۔ گلوکارہ کی شہرت، تصویر کے معیار اور بصری کشش کی وجہ سے مدعی (اور فوٹو گرافر) اس تصویر کے لائسنس سے آمدنی حاصل کرنے کے حق دار ہیں لیکن مدعا علیہ کے بغیر اجازت استعمال سے کمپنی کو مالی نقصان اٹھانا پڑا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’انسٹاگرام پوسٹ کے ذریعے یہ تصویر فوری طور پر لوپیز کے لاکھوں فالورز کی رسائی میں تھی… جو دوسری صورت میں اس تصویر کو کمپنی کے صارف رسالوں اور اخبارات میں شائع لائسنس شدہ ورژن میں دیکھتے۔‘
عدالتی دستاویزات کے مطابق ایجنسی ڈیڑھ لاکھ ڈالر ہرجانے کے علاوہ لوپیز کے خلاف حکم امتناعی بھی حاصل کرنے کی متمنی ہے تاکہ مستقبل میں گلوکارہ کو یا ان کی ٹیم کو تصویر پوسٹ کرنے سے روکا جا سکے۔
رواں سال کے آغاز میں ایک اور پاپارازی فوٹو ایجنسی ’ایکس ۔ کلوسیو ۔ لی‘ نے معروف ماڈل جیجی حدید کی جانب سے کمپنی کی ایک تصویر کو اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر شیئر کرنے پر کاپی رائٹس کی خلاف ورزی کا مقدمہ چلانے کی کوشش کی تھی۔
اس وقت حدید نے انسٹاگرام پر ایک طویل پوسٹ میں کہا تھا کہ ان کے خیال میں یہ مقدمہ ’مضحکہ خیز‘ تھا۔
پاپارازی کمپنی کی قانونی چارہ جوئی پر حدید کا مزید کہنا تھا کہ انہیں یہ تصویر ٹوئٹر سے ملی تھی اور ان کے پاس یہ جاننے کا کوئی طریقہ نہیں تھا کہ اس کو کس فوٹو گرافر نے بنایا ۔
’میں سمجھ سکتی ہوں کہ پاپارازی اسی طرح روزی روٹی کماتے ہیں اور میں اس کا احترام بھی کرتی ہوں۔ مجھے اپنے کام کے ساتھ اسے قبول کرنا ہوگا لیکن اس کی بھی ایک حد ہے۔‘
بزنس انسائیڈر کے مطابق یہ مقدمہ بالآخر نیو یارک کی ایک ڈسٹرکٹ عدالت میں اس وقت خارج ہو گیا جب جج کو معلوم ہوا کہ کمپنی نے مقدمہ دائر کرتے وقت بھی اس تصویر کے لیے اشاعت کے حق کا اندراج نہیں کرایا تھا۔
اس سے قبل خلوے کاردیشیان، 50 سینٹ، جیسکا سمپسن اور اریانا گرانڈے کو بھی انسٹاگرام پر پاپارازی کی تصاویر شیئر کرنے کے بعد کاپی رائٹس کی خلاف ورزی کے مقدموں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
© The Independent