آپ اشتہار کہاں کہاں دیکھتے ہیں؟ اخبار میں، ٹی وی پر، سوشل میڈیا پر، سڑک کنارے لگے بل بورڈز پر اور ایسی ہی مزید کچھ جگہوں پر لیکن کیا کبھی آپ نے بیت الخلاء میں تصویری اشتہار دیکھا ہے؟
سوچیں، آپ کو حالتِ مجبوری میں کسی پارک کی لیٹرین میں جانا پڑے اور آپ کی نشست کے عین سامنے کسی کمپنی کا اشتہار لگا ہو؟ چین میں ایسا ہوتا ہے۔
اشہتار کی دنیا صارف کے مطابق چلتی ہے۔ صارف کو کیا پسند ہے، کون سے موضوعات اس کے دل کے قریب ہیں، وہ کس میڈیم کا زیادہ استعمال کرتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ایک عام چینی اپنا پورا دن دفتر میں گزارتا ہے، دو چار گھنٹے سب وے میں، شام کسی ریستوران یا پارک میں اور رات کسی بار میں وقت اور یوآن ضائع کرتا ہے۔ ہر جگہ اس کا سامنا مختلف قسم کے اشتہارات سے ہوتا ہے لیکن چینی لیٹرین تک میں اشتہار لگاتے ہوں گے، یہ میں نے نہیں سوچا تھا۔
یہاں ہر جگہ عوامی لیٹرین موجود ہیں اور چینی انہیں استعمال کرنے سے بالکل نہیں ہچکچاتے۔ حکومت بھی ان کی صفائی کا مکمل دھیان رکھتی ہے۔ یہ لیٹرین بالکل چمچماتی تو نہیں ہوتے لیکن صاف ضرور ہوتے ہیں۔ کمپنیاں، جہاں عوام، وہاں اشتہار والے فارمولا پر عمل کرتے ہوئے یہاں بھی اپنے اشتہار لگاتی ہیں۔
آپ لیٹرین میں داخل ہوتے ہیں، دروازہ بند کرتے ہیں، ٹوائلٹ سیٹ پر تشریف رکھتے ہیں اور آپ کی نظروں کے عین سامنے ایک اشتہار چسپاں ہوتا ہے۔ آپ جتنی بھی نظریں ہٹا لیں، اشتہار تو دیکھنا ہی پڑتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اشتہار لگانے والا بھی اپنا کام پوری ایمانداری سے کرتا ہے۔ آنکھوں کے عین سامنے پہلا اشتہار، دروازے پر لگی کنڈی کے ساتھ دوسرا اشتہار اور فلش بٹن کے ساتھ تیسرا اشتہار لگا ہوتا ہے۔ گویا اپنا کام کرتے جائیں اور اشتہار کے مندرجات پڑھتے جائیں۔ پسند آئے تو کیو آر کوڈ سکین کریں اور پراڈکٹ حاصل کریں ورنہ اپنے کیے کرائے پر پانی پھیریں اور باہر نکل آئیں۔
مجھے اشتہار چسپاں کرنے والے سے ہمدردی بھی محسوس ہوتی ہے۔ سوچیں آپ کو کہا جائے کہ آج آپ نے اس علاقے کے تمام بیت الخلاء میں اشتہار چسپاں کرنا ہے، آپ کے دل پر کیا گزرے گی؟ اور اگر آپ کی کوئی گرل فرینڈ بھی ہو اور وہ آپ سے آپ کے کام کی نوعیت پوچھ لے تو؟
خیر کام تو پھر کام ہوتا ہے اور چینی کام کو عبادت سمجھ کر کرتے ہیں۔ اسی عبادت کی وجہ سے آج وہ ایک سوپر پاور ہیں۔
میں جب ان اشتہاروں کو دیکھتی ہوں تو سوچ میں پڑ جاتی ہوں کہ ہم چینیوں کا مقابلہ کیسے کریں گے۔ ہمارے عوامی لیٹرین میں جو آرٹ کے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں، ان کا ذکر چلیں رہنے دیتے ہیں۔ سب کو پتہ ہے، اب میں کیا پردے ہٹاتی پھروں۔ پہلے ہی لوگ کہتے ہیں کہ بہت بولڈ لکھتی ہو۔
چینی لیٹرین پر واپس آتے ہیں۔ بیت الخلاء میں جو کام ہم پانی سے کرتے ہیں، چینی وہی کام مغرب کی پیروی کرتے ہوئے ٹوائلٹ پیپر سے کرتے ہیں۔ چار سال قبل چین آئی تو پہلی یاد لوٹے کی آئی۔ جب انسان دیارِ غیر میں ہوتا ہے تو کبھی کبھی ایسی چیزیں بھی یاد آ جاتی ہیں جن کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا۔ لوٹے کا شمار ایسی ہی چیزوں میں ہوتا ہے۔
مجھے پہلی بار لوٹے کی یاد بیجنگ ائیرپورٹ کے ٹوائلٹ میں آئی۔ اندر تو چلی گئی لیکن لوٹا نہ دیکھ کر واپس آ گئی۔ یونیورسٹی پہنچی۔ کچھ گھنٹے آرام کیا۔ اب ٹوائلٹ یاترا مجبوری تھی۔ کمرے سے نکلی اور مشترکہ بیت الخلاء کا رخ کیا۔ دروازہ کھولا تو اندر لوٹا کیا، پانی کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ الٹے پیروں کمرے میں واپس گئی اور سارا معاملہ روم میٹ کے سامنے رکھا۔ وہ بے چاری میرے ساتھ آئی اور مجھے زمین پر لگا ننھا سا بٹن دکھایا۔ اس نے اپنا پاؤں اس پر مارا تو فلش میں پانی بہنے لگا یعنی کہ ہلکی پھلکی ورزش بھی وہیں ہو جاتی تھی۔ ہمارے ہاں یہ کام لوٹا کرتا ہے۔ چینیوں کے ہاں یہ والا لوٹا نہیں ہوتا، دوسری قسم کے لوٹے ضرور ہوتے ہیں جن کی بہتات ہمارے ہاں بھی ہے۔ ان کا ذکر پھر سہی۔