ملتان کی عائشہ رؤف نویں جماعت میں پڑھتی ہیں۔ تین سال پہلے انہیں کتاب لکھنے کا خیال آیا تو انہوں نے کارٹون اور اینیمیٹڈ سیریز دیکھنی چھوڑ دیں جو ان کی عمر کے بیشتر لڑکے لڑکیوں کا مشغلہ ہوتا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے بتایا: ’میں نے حقیقت پر مبنی فلمیں اور ڈرامے دیکھنے شروع کر دیے۔ مجھے خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک اور قدامت پسند سوچ سے واقفیت ہوئی۔ مجھے اپنے اردگرد کے حالات کا احساس ہونے لگا۔‘
یہی احساس تھا جس نے عائشہ کے کتاب لکھنے کے خیال کو تقویت دی کہ انہیں خواتین کی خودمختاری کے متعلق لکھنا چاہیے۔
تب وہ چھٹی جماعت میں تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ جب ٹیچر اور والدین کے سامنے اپنی خواہش رکھی تو والدین نے تو ساتھ دیا لیکن ان کی استانی مس بلقیس نے بہت مدد کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عائشہ نے بتایا: ’انہوں نے حوصلہ افزائی کی۔ کسی نے بھی مجھ پر تنقید نہیں کی۔ ہاں کچھ ہم جماعت تھے جو مذاق اڑاتے تھے۔‘
عائشہ کے والد رؤف محمود کے مطابق ان کی بیٹی کو بچپن سے ہی لکھنے کا شوق ہے اور انہوں نے بھی بیٹی کی حوصلہ افزائی کی۔
عائشہ نے ایک سال لگا کر انگریزی زبان میں مختصر ناول لکھ ڈالا جب وہ صرف ساتویں کلاس میں ہی تھیں۔
47 صفحات پر مشتمل ’An Experiment‘ یعنی ایک تجربہ کے نام سے یہ ناولٹ ایک لڑکی کے خود کو بچانے کی کوششوں کے متعلق ہے جسے قتل کے الزام کے بعد گاؤں سے فرار ہونا پڑتا ہے۔ اسے بادشاہ کے دربار سے بھی انصاف نہیں ملتا اور جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ وہ حوصلہ نہیں ہارتی اور ہر مشکل میں آگے بڑھنے کا راستہ ڈھونڈ نکالتی ہے۔
عائشہ کھلکھلاتے ہوئے کہتی ہیں: ’اٹھویں جماعت میں تھی جب بابا نے اسے شائع کروایا۔ میں خوش ہوئی کہ بابا نے میرے لیے اتنا کچھ کر دیا۔‘
رؤف محمود نے بیٹی کے ناولٹ کی 300 کاپیاں شائع کروا کر فروخت کرنے کی بجائے عوامی حلقوں میں تقسیم کر دیں تاکہ اس کا پیغام زیادہ سے زیادہ لوگوں میں پھیلے۔
پاکستان میں خواتین کی صورتحال پر عائشہ رؤف کا مؤقف بہت دوٹوک ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ انٹرویو میں انہوں نے بتایا: ’بے بس خواتین ہوتی ہیں۔ پاکستان میں بھی ہیں جن کو سہارا چاہیے ہوتا ہے۔ زیادہ تر خواتین کچھ کرتی ہی نہیں۔ انہیں خود اپنے لیے کھڑا ہونا چاہیے۔ جو خود کچھ کرنا نہیں چاہتیں ان کی مدد نہیں کی جا سکتی۔ انہیں خودمختار ہونا چاہیے۔ اپنی مرضی سے شادی کا حق لینا چاہیے۔ اگر کوئی نہیں دیتا تو اس کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے۔ تعلیم حاصل کرنی چاہیے جس سے ذہن کھلتا ہے۔ لیکن سب کچھ اسلام کے دائرے میں رہ کر کرنا چاہیے۔‘
عائشہ رؤف آج کل اپنی دوسری کتاب لکھ رہی جو خواتین کی تعلیم کے بارے میں ہے۔ اس کا نام انہوں نے ’An Education‘ یعنی ایک تعلیم سوچ رکھا ہے۔