بدھ کو ہونے والے قائمہ کمیٹی برائے دفاع (قومی اسمبلی) کے اجلاس میں ڈی جی ایف آئی اے اور چئیرمین پی ٹی اے متنازع سوشل میڈیا مواد سے متعلق کارروائی کرنے کی ذمہ داری ایک دوسرے پہ ڈالتے رہے۔
چئیرمین کمیٹی امجد علی خان نے کہا کہ ’ملک کے خلاف بات کیے جانے پر بھی آپ کو سُرخ فیتے کا انتظار ہے چاہے پاکستان کی جڑیں کھوکھلی ہو جائیں؟‘ کمیٹی میں زیر بحث متنازعہ مواد میں زیادہ فوکس سوشل میڈیا پر پاکستان مخالف آرا اور ٹویٹس سے متعلق رہا۔
چئیرمین پی ٹی اے میجر جنرل ریٹائرڈ عامر عظیم باجوہ نے کہا کہ ’پی ٹی اے کا کام ہے کہ سیکشن 37 میں جو مواد آئے تو ہم بلاک کر دیں۔ حکومت کے 31 محکمے تحقیقی کام میں مصروف ہیں۔ کبھی شکایت کرنے والے کو لگتا ہے کہ سوشل میڈیا مواد متنازع ہے اس لیے بلاک کر دیں۔ لیکن جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو وہ بات اتنی متنازع نہیں ہوتی کہ بلاک کیا جائے۔‘ انہوں نے کہا کہ ’ہم آزادی رائے کا حق تو ختم نہیں کر سکتے۔ ہر بات پر اکاؤنٹ بلاک نہیں کیے جا سکتے۔ 31 ایجنسیاں ہیں، ہو سکتا ہے ان کی آپسی رپورٹس بھی نہ ملتی ہوں۔ ہر ایک کا نکتہ نظر مختلف ہوتا ہے۔'
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ٹویٹر ہمارے ساتھ اب تعاون کرتا ہے۔ کشمیر کے معاملے پر 300 سے زائد اکاؤنٹ بلاک ہو ئے تھے ان میں سے 75 اکاؤنٹ پی ٹی اے نے فعال کروا لیے ہیں۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈی جی ایف آئی اے نے اجلاس میں بتایا کہ ’انہیں اس وقت سات مسائل کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب کسی متنازع اکاؤنٹ کی شکایت ٹویٹر کو لگائی جاتی ہے تو ٹویٹر والے اپنے وقت کے حساب سے شکایت پر جواب دیتے ہیں۔ پاکستان کا کوئی معاہدہ نہیں ہے ٹویٹر کے ساتھ جس کے تحت پاکستان انہیں کارروائی کا کہہ سکے۔‘ انہوں نے کہا کہ ’یورپی ممالک کے ساتھ بھی کوئی معاہدہ نہیں کہ ہم سوشل میڈیا مواد سے متاثر ہونے کے قوانین سے فائدہ اٹھا سکیں۔ پچھلے دنوں بات ہوئی کہ سوشل میڈیا پر بہت سے اداروں کے خلاف باتیں ہو رہی ہیں۔ تو ہم سے پوچھا گیا کہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب تک ایف آئی اے کے پاس تحریری شکایت نہیں آئے گی ہم کارروائی نہیں کر سکتے۔ اگر کوئی درخواست آتی ہے تو عدالت سے انہیں ضمانت مل جاتی ہے۔‘ چئیرمین کمیٹی امجد علی خان نے کہا ’تو اس کا مطلب ہے کہ ہمارا پروسیکیوشن کا سسٹم بہت کمزور ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان کے اندر اگر کوئی بے لگام چلتا ہے تو چلتا ہی چلا جاتا ہے۔ بہت سارے ایسے اکاؤنٹ اب بھی پاکستان مخالف مہم جوئی کر رہے ہیں تو ادارے اس پہ خاموش کیوں ہیں؟ نیکٹا اس پر کیا کر رہا ہے؟‘
کمیٹی ممبران نے نکتہ اُٹھاتے ہوئے کہا کہ آج کل نوجوان نسل میں بھی ٹویٹر کا بہت زیادہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ پی ٹی اے اور ایف آئی اے ذمہ داری ایک دوسرے پہ ڈال رہے ہیں ایف آئی اے کہہ رہا ہے کہ شکایت آئے تو کارروائی کریں گے۔ حالانکہ ملک مخالف مواد کے لیے شکایت کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔
ڈی جی ایف آئی اے نے واضح کیا کہ ’ایف آئی اے کسی بھی درخواست پر ازخود نوٹس لے کر کارروائی نہیں کر سکتا اور نہ فریق بن سکتا ہے۔ لیکن اگر شکایت درج کرنے کے قانون میں تبدیلی کی جائے کہ کسی شخص کی بجائے ادارہ شکایت درج کروا دے تو ایف آئی اے سوشل میڈیا پر متنازعہ مواد بالخصوص پاکستان مخالف مواد نشر کرنے والوں کے خلاف کارروائی کر سکے گا۔'
وزیر دفاع پرویز خٹک اداروں کی رپورٹس سننے کے بعد تلملاتے ہوئے بولے کہ ’تحقیق آ گئی، فائل بن گئی تو کیا وہ فائل پاس ہی رکھنی ہے؟ یا آگے بھی کہیں بھیجنی ہے؟ وفاق میں ہر محکمہ صرف اپنا کام کر کے فائل رکھ دیتا ہے بیوروکریسی کا بھی کوئی سربراہ ہونا چاہیے جو ان سے پوچھ گچھ کرے۔‘
کمیٹی ممبران نے متفقہ رائے دی کہ 31 ایجنسیاں اپنا کام کر رہی ہیں لیکن اُن کے درمیان ایک کوآرڈینٹر بھی ہونا چاہیے تاکہ ایجنسیوں کے درمیان بھی باہمی اشتراک رہے اور معلومات کا تبادلہ ہوتا رہے۔'