آج کے دن کاآغاز بھی معمول کے مطابق تھا۔ میں ہمیشہ کی طرح آٹھ بجے اپنے دفتر میں موجود تھا۔ ان چار سال میں یہ معمول شاید ہی کبھی متاثر ہوا ہو۔ مجھے گورڈن کالج میں پروفیسرسجاد شیخ کی آخری کلاس یاد آگئی جب ایم اے سیشن کے اختتام پرانہوں نے ہمیں تین باتوں کا درس دیا تھا۔ یہ وہ ’زادِ راہ تھا‘ جو میں نے اپنے پلے باندھ لیا تھا۔
پابندی وقت کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اس کی منصوبہ بندی اوردوسروں کی عزت نفس کاخیال۔
میں پیچھے مڑ کر زندگی کے سفر پر نگاہ ڈالتا ہوں تو شیخ صاحب کی یہ تین نصیحتیں میرے راستے کی جگمگاتی روشنیوں کی صورت میں سامنے آتی ہیں۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں چار سال کے دوران میں نے کبھی چھٹی نہیں کی۔ مجھے یقین ہے سجادشیخ صاحب یہ جان کر جنت کے روشوں پرچلتے ہوئے ضرور خوش ہوئے ہوں گے۔
آج مجھے یونیورسٹی میں اپنا پہلادن بھی یاد آ رہا ہے جب میں لاہورسے اسلام آباد یونیورسٹی کو بطورِ وائس چانسلر جائن کرنے کے لیے آرہا تھا۔ یہ یونیورسٹی میرے لیے نئی نہیں تھی۔ میں یہاں پر پہلے بھی پڑھاتا رہا۔ اس کے بعد ملک کی کئی معروف یونیورسٹیوں کے ساتھ وابستہ رہا۔ اب ایک مدت کے بعد علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں بطور وائس چانسلر آرہاتھا۔ اس عرصے میں یونیورسٹی بدل چکی تھی۔ نئی عمارتیں، نئے لوگ اور طلباء کی تعداد 13 لاکھ ہو چکی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت سے چیلنجز بھی تھے۔ ان میں سرفہرست ایک طویل عرصے سے سلیکشن بورڈ کا انعقاد نہ ہونا تھا۔ میں نے یونیورسٹی کے ہر ڈیپارٹمنٹ کے افراد سے اجتماعی اورانفرادی ملاقاتیں کیں۔
ان ابتدائی ملاقاتوں میں تین چیزوں کاوعدہ کیا۔ عزت نفس، اعتماد اور کام کرنے کی آزادی۔ میں نے اس اصول پر عمل کرنے کی پوری کوشش کی اور اس کے مثبت نتائج ملے۔ دوسرے ہی ہفتے میں اپنے ٹارگٹس کا تعین کیا اور ان اہداف کو اپنی ہر اجلاس میں دھراتا رہا تاکہ سب ساتھیوں کے ذہنوں میں یہ راسخ ہو جائیں اور ہماری منزل کا تعین آسان ہو جائے۔ ان میں سرفہرست تحقیق کاہدف تھا۔ تحقیق کے کلچر کے فروغ کے لیے ایک سہولتوں کا آغاز کیاگیا۔ اس کے مطابق کسی بھی Accredited Journalمیں ریسرچ پیپر کی اشاعت پر کیش ایوارڈ قومی سطح کی کانفرسوں میں پیپرز پریزٹیشن پر یونیورسٹی کی سپانسرشپ اور ریسرچ پراجیکٹس کے لیے یونیورسٹی کی طرف سے مالی معاونت شامل تھی۔
تحقیق کے عمل میں لائبریری کا اہم کردار ہوتا ہے۔ اس کے اوقات کو فوری طور پر بڑھا کر صبح آٹھ سے شام سات بجے تک کر دیاگیا اور ہفتہ اتوار کی چھٹی ختم کر دی گئی۔ یوں اب یونیورسٹی کی لائبریری ہفتے کے ساتوں دن کھلی رہتی ہے۔
کسی بھی یونیورسٹی میں صرف تحقیق کاہونا کافی نہیں۔ تحقیق کے نتائج کا دوسروں تک پہنچنا بھی اتناہی اہم ہے۔ اس کے دو اہم ذرائع ریسرچ جرنلز اورریسرچ کانفرنسرز ہیں۔ ان چار سال میں ہم نے اس شعبے پر بھرپور توجہ دی اوراس وقت علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے 17ریسرچ جرنلز شائع ہو رہے ہیں۔ تحقیق کے نتائج کی ترویج میں ریسرچ کانفرنسز کا بھی اہم کردار ہوتا ہے۔ ان چار سال میں یونیورسٹی میں 42 کانفرنسز کا انعقاد ہوا۔ اس کے علاوہ 250 کے قریب سیمینار منعقد ہوئے اور ہر سال لٹریچر کارنیوال کاانعقاد کیاگیا۔ یوں یونیورسٹی کو علمی، تحقیقی اور ادبی سرگرمیوں کا مرکز بنانے کی کوشش کی۔ جہاں ملک کے مایہ ناز ادیب، شاعر، صحافی اور دانشور تشریف لائے۔
اسی طرح یونیورسٹی کی فیکلٹی نے ایچ ای سی اور بین الاقوامی سطح پر بہت سے ریسرچ پراجیکٹس جیتے۔ ایک اہم ہدف نصاب کو اپ ڈیٹ کرنا تھا جس کے لیے ایک ٹاسک فورس کا قیام عمل میں لایاگیا۔ چھبیس نئے پروگرامز متعارف کرائے گئے اور آٹھ نئے شعبوں کی منظوری دی گئی۔ ملازمین کی پیشہ وورانہ تربیت کااہتمام تین سطحوں‘کیمپس‘ نیشنل اورانٹرنیشنل سطح پرکیاگیا۔ طلبا کی شکایت کے ازالے کے لیے کمپلینٹ مینجمنٹ سسٹم کانظام متعارف کرایا گیا۔ اس کے علاوہ کال سینٹرز کاانعقاد عمل میں آیا۔ ایڈمیشن‘ کتابوں کی میلنگ اورامتحانات کے شعبوں میں آئی ٹی کے استعمال سے ان کارکردگی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ایک اہم ٹارگٹ کمیونٹی سروس تھا جس میں معاشرے کے مظلوم طبقوں کی داد رسی شامل تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یونیورسٹی میں تمام سپیشل سٹوڈنٹس چاہے معذوری کی کوئی بھی قسم ہو کے لیے ہر سطح پر مفت تعلیم کی سہولت مہیا کی گئی۔ اسی طرح جیل کے قیدیوں کے لیے مفت تعلیم کے پراجیکٹ کوزیادہ مؤثر بنایاگیا۔اس سال تقریباً ایک ہزار قیدی مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ خواجہ سراؤں کے لیے بھی مفت تعلیم کی سہولت دی گئی ہے۔
وہ بچیاں جن کاتعلق پاکستان کے پسماندہ علاقوں سے ہے اورجومالی وسائل کی کمی کی وجہ سے سکول تک نہیں پہنچ سکیں یونیورسٹی انہیں بنیادی تعلیم پانچویں جماعت اور آٹھویں جماعت تک مفت تعلیم کا اہتمام کیا ہے جس کی بدولت سینکڑوں بچیوں کو تعلیم کے زیورسے آراستہ ہوئیں۔ بینائی سے محروم طلباء کے لیےAccessibilityسینٹر کا قیام عمل میں لایاگیا‘ جس کی بدولت بینائی سے محروم افراد کسی دقت کے بغیر لائبریری کااستعمال کرسکتے ہیں‘ جس طرح معاشرے میں محروم طبقے ہیں‘ اسی طرح پاکستان میںکچھ محروم علاقے بھی ہیں۔ فاٹا اوربلوچستان کے بچوں کے لیے مفت تعلیم کااعلان کیاگیا ‘جس کے نتیجے میں ان علاقوں سے داخلے کی درخواستوں میںکئی گنااضافہ ہوا۔
مجھے پچھلے دوماہ سے ہونے والی الوداعی تقریبات یادآنے لگیں۔ یونیورسٹی کے اکیڈمک اورایڈمنسٹریٹو شعبوں نے خوبصورت الوداعی تقریبات کااہتمام کیا اورمیرا ایمان محبت کے معجزوں پر پختہ ہوگیا۔ چار سال کا سفر چند لمحوں میں میری نگاہوں کے سامنے سے گزرگیا۔ میں شایدگئے وقت کے سحرمیں کچھ دیراور رہتا کہ دروازے پردستک مجھے ماضی سے حال میں لے آئی۔ دروازے پر دعوت کے منتظمین تھے۔ یہ آخری الوداعی دعوت تھی جس کا اہتمام ایمپلائز ویلفیئرایسوسی ایشن نے کیا تھا۔ ہال کے دروازے سے سٹیج تک سرخ پھولوں کا قالین سا بچھ گیا تھا۔ سٹیج پربیٹھے میں ان چہروں کو دیکھ رہاتھا جو محبت کے جذبوں کی آنچ سے دہک رہے تھے، جن سے شاید پھر کبھی ملاقات نہ ہو۔ سٹیج سے تقریریں ہو رہی تھیں۔
محبت کے جذبوں کااظہار ہو رہا تھا اور میں سوچ رہاتھا کہ اس مدت میں میرے گھر والوں کو ہمیشہ یہ شکایت رہی کہ میں ان کو وقت نہیں دیتا۔ شام کو جب دیر سے گھر پہنچتا تو ان کی آنکھوں سے یہ سوال جھانک رہا ہوتا کہ آخر میں یہ سب کیوں کر رہا ہوں؟ اس جنون اوردیوانگی کا حاصل کیا ہے؟ میرے پاس اس وقت اس سوال ک اکوئی جواب نہ ہوتا لیکن آج مجھے اس سوال کاجواب مل گیا ہے۔ میں ہال میں بیٹھے ہوئے چہروں پرنگاہ ڈالتا ہوں، ان کی آنکھوں میں تیرتی نمی، ان کی نگاہوں میں محبت کی مٹھاس اور ان کے چہروں پرجذبوں کی آنچ کو محسوس کرتا ہوں۔
مجھے یوں لگتا ہے یہی میری چار سالہ محنت کاحاصل ہے۔ میری عمر کی سب سے بڑی کمائی اور میری زندگی کاسب سے قیمتی 'اثاثہ‘۔