مرد ہونے کے لیے جتنی چیزیں ضروری ہیں اس میں سوائے جسم کے، باقی سب کا سب حالات پہ ڈیپنڈ کرتا ہے۔ مطلب دنیا میں تو آنا تھا، یا مرد یا عورت یا کوئی درمیانی شکل، تو آپ آ گئے۔ اب آپ ایک عدد مرد ہیں، اوکے فائن، لیکن باقی سب کچھ جو مارکیٹ میں مردانہ پن کہلاتا ہے اگر وہ سب آپ کے اندر نہیں ہو گا تو آپ مرد کیسے کہلائیں گے؟
جیسے مرد جو ہے اس کا تاریخی طور پہ تصور یہ ہے کہ وہ بہادر ہو گا۔ یار دنیا کی آدھی آبادی مرد ہے، اس میں ڈرپوک نہیں ہوں گے کیا؟ جیسے خدا نے آپ کو مرد بنا کے بھیج دیا اسی طرح بہادر بھی اسی نے ہی بنانا تھا، نہیں بنایا تو اس میں آپ کا قصور کیا ہے؟ آپ کے دانت میں درد ہے، داڑھ کے اندر سے روح کھچ کے آسمان کی طرف جا رہی ہے اور ساتھ کوئی بھی ٹھیک دانتوں والا منحوس بیٹھ کے مشورے دے رہا ہے، ابے مرد بن مرد، تھوڑی دیر کی تکلیف ہے، جا ڈینٹسٹ کے پاس جا وہ سیٹ کر دے گا۔ ڈاکٹر کے پاس جائیں گے، اس کی کرسی دیکھتے ہی آپ کا دم نکل جائے۔ وہ قبر لگے گی آپ کو، پھر اندر سے آواز آئے گی، ابے مرد بن مرد، یہ ڈینٹسٹ کی اسسٹنٹ کیا بولے گی؟ کیسا ہلکا آدمی ہے! آپ کرسی پہ بیٹھ جائیں گے۔
اس نے داڑھ کا ایکسرے کرنا ہے۔ اب اسی دکھتی ہوئی داڑھ میں ایک چھوٹا سا کارڈ مسوڑھے اور گال کے درمیان پھنسایا جائے گا، وہ کارڈ کسی کتے کی طرح کاٹ رہا ہو گا لیکن آپ مرد بنے ہوں گے۔ ہو گیا ایکسرے، اب داڑھ نکلے گی یا اس میں صفائی کے بعد مصالحہ بھرا جائے۔ دونوں صورتوں میں ٹیکا لگے۔ اب چاہے ٹیکے سے دماغ میں جھنجھنے بج جائیں، آنکھوں سے آنسو نکل آئیں لیکن خبردار جو منہ سے آواز بھی نکلی، مرد بن مرد! دانت نکل گیا، خون کی کلیاں کر رہے ہیں، سن ہے ایک طرف کا ہونٹ، کلی کے لیے منہ ٹھیک سے بند نہیں ہو رہا، عجیب مصیبت ہے لیکن آپ نے ایکٹ نارمل کرنا ہے۔ آپ کے اندر تسبیح چل رہی ہے۔ مرد بن مرد، بہادر بن، مرد بن مرد، بہادر بن۔ اگر کلینک میں چھت پر پنکھا چل رہا ہے تو وہ بھی آپ کو یہی آواز سنا رہا ہے، مرد بن مرد، بہادر بن، مرد بن مرد، بہادر بن!
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ تو ایک مثال تھی۔ آپ کو سردی لگ رہی ہے، طبیعت سے لگ رہی ہے۔ جسم میں دور تک سناٹا مچا پڑا ہے، کانپ رہے ہیں آپ اور آپ چلتے جا رہے ہیں، لیکن اگر آپ کے ساتھ کوئی بھی لڑکی ہے تو پھر سے آپ کے اندر کیسٹ لگی ہو گی، مرد بن مرد۔ وہ لڑکی بیوی، بیٹی، بہن، دوست، کوئی بھی ہو سکتی ہے، ماں نہیں۔ ماں اپنی چادر بھی آپ کو دے سکتی ہے۔ ادروائز بھارتی فلموں کے بعد اب یہ اخلاقی طور پہ آپ پر فرض ہو چکا ہے کہ اس ساری واک میں کم از کم ایک بار آپ لڑکی سے ضرور پوچھیں گے، یار اگر تمہیں سردی لگ رہی ہے تو یہ میرا سوئٹر/جیکٹ/کوٹ/شال لے لو (ہاں میرا کیا ہے میں تو مرد ہوں، میں تو اپنی کھال اوڑھ کے بھی سردیاں کسی غار میں گزر لوں گا، تم لے لو)۔ اب اگر اس بندی نے ہاں بول دیا، آپ گئے کام سے۔ گھر آ کے چاہے کمبل بچھا کر ہیٹر کے سامنے رات گزار دیں لیکن اس وقت مرد بننا ضروری ہے۔
اسی طرح مرد ہیں تو کھیلوں کا شوقین ہونا بھی آپ کے لیے ضروری ہے۔ وہ سارے کھیل جسمانی طاقت والے ہونے چاہییں۔ چاہے بولنگ کراتے کراتے آپ کا کندھا رہ جائے، فٹ بال کو ٹھڈا مارتے ہوئے ٹانگ ٹوٹ جائے، ہاکی سیدھی ٹخنوں میں بجے، ٹینس آپ کی کہنی سجا دے لیکن آپ اگر مرد ہیں تو دوسروں کو یہ ثابت کرنے کے لیے کہ آپ مرد ہیں، ان سارے پنگوں میں پڑنا آپ کے لیے ضروری ہے۔ اس سے برتر درجے کا مرد وہ ہے کہ جو ریسلنگ یا جوڈو کراٹے کا شوق رکھتا ہو، بھئی سبحان اللہ۔ یہ دونوں کھیل تو مرد کا زیور سمجھے جاتے ہیں۔ جتنا زیادہ آپ جسمانی طور پہ الجھنے اور الجھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اتنے زیادہ آپ مرد ہیں۔ آپ سکول میں ہیں، کالج میں ہیں اور آپ کا اب تک کوئی پھڈا نہیں ہوا تو باقاعدہ آپ کے ماں باپ پریشان ہو جائیں گے، کیسا بچہ ہے ہمارا؟ یہ کہیں ’گے‘ تو نہیں ہوتا جا رہا؟ کوئی لڑتا ہی نہیں اس سے؟ نہ یہ کسی سے لڑتا ہے۔ پرانے زمانے میں ایسے بچے فلاسفر کہلائے جاتے تھے اور وہ پھر بھی قابل قبول لفظ تھا لیکن ’گے‘؟ ایتھے وڈے وڈے ماں پے دا تراہ نکل جاندا جے!
دنیا بھر میں لڑکے لوگ ڈانس کرتے ہیں، وہ سپینش مرد بوٹ بجا کے کرتے ہیں، یورپ والے ٹوئسٹ، سالسا، ہپ ہاپ، بریک ڈانس، بیلے اور پتہ نہیں کیا کیا کرتے ہیں، افریقی سامبا کرتے ہیں، ہم لوگ ایک لمبی سی ہا کرتے ہیں۔ ہا ا ا ا۔۔۔ وہ ان کا لڑکا دیکھا تھا؟ وہ ڈانس کرتا ہے۔ ہماری تو فلموں تک میں کوئی مرد ڈانس نہیں کرتا، پرانے زمانے میں ہیرو ڈانگ پکڑ کے کھڑا ہوتا تھا اور ہیروئین اسی کے چار چفیرے ناچتی پھرتی تھی بچاری۔ پھر بندوق ڈانس شروع ہوا، اب اکڑے ہوئے جسم کے ساتھ ہیرو لوگ تھوڑا بہت ڈانس کر لیتے ہیں لیکن وہ بھی ظاہری بات ہے اچھے مرد تو نہیں ہوتے نا۔ ہماری شادیوں میں اگر بہت مجبور کرنے پہ کسی مرد کو ڈانس کے لیے اٹھنا پڑے تو وہ دونوں ہاتھ اٹھا کے، شہادت کے انگلی آسمان کی طرف کر کے، شکل بالکل سنجیدہ رکھ کے، سوگوار اور اکڑا ہوا بھنگڑا شروع کر دے گا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کلاسیکل تو چلو ایک طرف پھینک دیا کہ اس کی لچک ہمارے جین تک سے نکل چکی، بھنگڑا تک ڈالنا ہمیں نہیں آتا، فقیر خود بھی پیدل ہے۔ حالانکہ بھنگڑا تو نری ورزش ہے۔ لیکن وہی مردانہ پن! معزز شریف سنجیدہ مردانہ پن۔ کھا گیا صاحب ہمیں مردانہ پن۔ اب نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے بچے خوشی کے موقعے پہ ہوائی فائرنگ کرتے ہیں، بم پھاڑتے ہیں، ایک پہیے پہ موٹرسائیکل چلاتے ہیں کہ بہرحال ہمارا مرد بہادر تو ایسے ہی ہوتا ہے۔
اہم ترین بات یہ ہے کہ ہم مرد میں انسانی خوبی کوئی پسند نہیں کرتے۔ بہادر ہے تو وہ چیتا ہو گا۔ خود سے مسئلے کھڑے کرنے کا ماہر ہو گا تو وہ شیر ہو گا۔ کھانے کا شوقین ہے تو وہ ڈھگا (بیل) ہو گا۔ بیوقوف ہو گا یا انتھک کام کرنے والا کوئی ہو گا تو وہ کھوتا ہو گا۔ گالی دینی ہو گی تو وہ یا اس کا خاندان کتا ہو گا۔ پیار آئے تو وہ باندر ہو جائے گا۔ بڑی گالی دینی ہو گی تو خنزیر ہو جائے گا۔ ڈرپوک ہو گا تو چوہا ہو گا۔ لمبا ہو گا تو اونٹ ہو گا۔ موٹا ہو گا تو گینڈا یا ہاتھی ہو گا۔ مرد بننا ہو گا تو آپ یہ سب بھی نہیں بن سکتے، ایک عذاب نہیں ہے؟ آخر ایک مرد کس طرح خالص مرد بن سکتا ہے؟ کبھی آپ نے کسی عورت کو کہا ہے کہ تم شیرنی ہو یا باندری ہو یا مادہ خنزیز ہو یا چوئی ہو یا گینڈی ہو؟ ویسے عورت ہونا چونکہ بذات خود ایک طعنہ ہے، کمزوری ہے اور جانوروں سے اوپر انہیں کچھ سمجھا نہیں جاتا تو شاید انہیں ایسے کسی نام سے پکارنا ضروری بھی نہیں۔ پھر سب سے بڑی بات یہ کہ اگر مرد مرد نہ ہو تو وہ بھی عورت ہی کہلاتا ہے، عورت کہلانے سے بڑی کوئی گالی اس کے لیے نہیں ہے۔ کیوں غصہ آ گیا؟ آپ کے نزدیک عورت عظیم ہے؟ اچھا، آپ کو باہر کوئی گلی میں کہے کہ اس کی چال سے زنانہ پن ٹپکتا ہے یا آپ ایسے ڈرپوک ہیں جیسے کوئی چھوٹی لڑکی ہو تو کیا آپ لڑ نہیں مریں گے؟ سوچیں برادر سوچیں، مرد ہوتا کیا ہے؟
سب سے بڑا مردانہ پن آپ کے ساتھ قدرت کی طرف سے جڑا آتا ہے۔ اگر کسی وجہ سے اس کا سسٹم خراب ہو جائے تو یہ ساری بہادری، دلیری، درد نہ ہونا، سنجیدہ رہنا، لڑائیاں کرنا، سردی نہ لگنا، یہ سب کس کھاتے میں جائے گا؟ کیا آپ تب بھی خود کو مرد کہہ سکیں گے؟
تو اگر ساری مردانگی ایک قدرتی اتفاق کا نتیجہ ہے اور وہ اگر کام کرنا چھوڑ دے تو آپ نامرد ہیں تو پھر اس سارے کھیل تماشے کا فائدہ کیا ہے؟ یا اگر عظیم مردوں کی صفات جسم کے ایک ٹکڑے کے ناکارہ ہونے کے بعد بھی قائم رہ سکتی ہیں تب تو ہے بہترین۔ اگر وہ سب کچھ نہیں ہے اور آپ کی مردانگی بس یہیں تک ہے تو آپ شیر، چیتا یا مرد بننے کی بجائے انسان بننا پسند کیوں نہیں کرسکتے؟
وہ انسان جسے سردی لگتی ہو، درد ہوتا ہو، جو ناچ سکتا ہو، جو رو سکتا ہو، جو ماں، بہن، بیٹی، بیوی کے دکھ سکھ میں ساتھ دے سکتا ہو، جو سڑک پہ چلتی بچیوں کو غیر محفوظ ہونے کا احساس نہ دیتا ہو، جو گھر آئی کام کرنے والیوں کو وقتا نہ ڈالتا ہو، جو ساتھی عورتوں کو دیکھنے کی بجائے ان کی آنکھوں کو دیکھ کر بات کر سکتا ہو، جو خواہ مخواہ کا بہادر نہ ہو بس تھوڑا سا ہو اور باقی سب ایک انسان ہو؟ یہ سب اُس وقت ممکن ہو سکتا ہے جب مرد ہونا ایک قدرتی اتفاق سے مشروط سمجھا جائے۔ اگر مرد ہونا خاص قدرت کا انعام ہے تو لگا رہ منے بھائی، مرد بن مرد!