لاہور میں دو روز تک جاری رہنے والی عاصمہ جہانگیر روڈ میپ فار ہیومن رائٹس کانفرنس میں جہاں انسانی حقوق کے حوالے سے بات ہوئی وہیں پاکستان میں میڈیا پر لگائی جانے والی حالیہ پابندیوں پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا۔ ملکی و غیر ملکی صحافیوں نے اس موقعے پر پاکستانی میڈیا کی آزادی کے حوالے سے بھی کئی سوال اٹھائے۔
اوون بینیٹ جونز ایک برطانوی صحافی ہیں اور پاکستان کے حوالے سے دو کتابیں ’پاکستان تھرو قراقرم ہائی وے‘ اور ’پاکستان آئی آف دی سٹورم‘ کے نام سے لکھ چکے ہیں۔ کانفرنس کے دوران انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے اوون بینیٹ جونز نے میڈیا کی آزدی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وقت اچھا بھی ہوتا ہے اور برا بھی اور صحافی پریشر محسوس کرتے ہیں میرے خیال میں پاکستانی صحافی شاندار کام کر رہے ہیں اس کے باوجود کہ ان پر بہت سے پریشر ہیں جن میں حکومت، انتہا پسند عناصر اور دیگر وجوہات شامل ہیں۔ سچ یہ ہے کہ صحافی دباؤ محسوس کرتے ہیں مگر انہیں اپنا کام جاری رکھنا پڑتا ہے۔‘
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ کے ایک رکن سٹیون بٹلر کو لاہور ائیر پورٹ سے واپس امریکہ بھیج دیے جانے کے حوالے سے اوون کا کہنا تھا کہ ’انہیں یہ بالکل سمجھ نہیں آ رہی کہ انہیں یہاں آنے سے روکا کیوں گیا ہے؟ جب کہ وہ پاکستان کے حوالے سے لکھتے بھی ہیں اور انہوں نے پاکستان کے حوالے سے کام بھی بہت کیا اور وہ یہاں سول سوسائٹی کی جانب سے منعقدہ تقریب میں شرکت کے لیے آرہے تھے۔‘
اوون بینیٹ جونز کا کہنا تھا کہ ’دنیا بھر کے صحافی اس وقت پریشر میں ہیں اور حکومت وقت انہیں صرف وہ لکھنے کی اجازت دیتی ہے جو وہ چاہتی ہے ایسا امریکہ اور برطانیہ میں بھی ہورہا ہے اور ظاہری بات ہے پاکستان کے صحافی بھی اپنی آزاد صحافت کو لے کر خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔‘
ان کے خیال میں دنیا کی نظریں پاکستان پر ہیں اور حکومتی عہدے دار بوکھلاہٹ کا شکار ہیں کیوں کہ بین الاقوامی خبروں میں پاکستان کا ذکر کافی حد تک کیا جارہا ہے۔ ’میرا ماننا یہ ہے کہ غیر ملکی صحافی یہاں آکر وہی کچھ رپورٹ کر رہے ہیں جو وہ خود دیکھ رہے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سٹیون بٹلر کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے رکن ہیں اور ایشیا کے پروگرام کوآرڈینیٹر ہیں۔ یہ بھی اس کانفرنس میں شرکت کے لیے امریکہ سے پاکستان پہنچے مگر انہیں لاہور ائیر پورٹ سے واپس بھیج دیا گیا۔ انہوں نے پھر بھی کانفرنس میں شرکت سکائپ کال کے ذریعے کی۔ سٹیون کا کہنا تھا کہ انہیں افسوس ہے کہ وہ کانفرنس میں موجود نہیں ہیں۔
جمعرات کی صبح لاہور ائیرپورٹ پر ان کا جہاز اترا مگر انہیں اترنے کی اجازت نہیں دی گئی جب کہ ان کے پاس جرنلسٹ ویزہ تھا جو پاکستانی ایمبیسی نے انہیں جاری کیا تھا۔
ائیر پورٹ پر انہیں بتایا گیا کہ وہ وزارت داخلہ کی سٹاپ لسٹ پر ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ انہیں اس لسٹ میں کس نے ڈالا ہے جس کی وجہ سے انہیں واپس جانا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اگر یہ مجھے پیغام دیا جا رہا ہے یا مجھے چپ کروایا جارہا ہے تو جو بھی اس کے ذمہ دار ہیں میں ان سے کہوں گا کہ مجھے یہ سمجھنے میں مدد کریں کہ مجھے کیوں روکا جارہا ہے؟ مجھ سے بات کریں، اگر آپ کو لگتا ہے کہ میں اس سب سے میں خاموش ہو جاؤں گا تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے اور پاکستان اور آزادی صحافت پر میرے خیالات تبدیل ہو جائیں گے تو میرے خیال میں آپ غلط سوچ رہے ہیں۔ اس طرح کی حرکت پر دنیا پاکستانی حکومت پر سوال اٹھا رہی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں صحافیوں کو مار دیا جاتا ہے، ٹی وی شوز بند کر دیے جاتے ہیں، اخبار کی سرکولیشن روک دی جاتی ہے جس کے بعد اشتہاروں کا پیسہ ضائع ہو جاتا ہے اور بہت سی ایسی چھپی ہوئی طاقتیں اور طاقتور عناصر ہیں جو صحافیوں کو عدلیہ، سکیورٹی اور مسنگ پرسنز پر کھل کر لکھنے نہیں دیتیں جس کی وجہ سے پاکستانی عوام حقائق سے انجان رہتے ہیں، ان حالات میں پاکستان میں جمہوریت پھل پھول نہیں سکتی۔ پاکستان میں آزادی صحافت آئین کا حصہ تو ہے مگر حقیقت میں پاکستان میں صحافت آزاد نہیں ہے۔‘
پاکستانی صحافی سرل المائڈہ جو ڈان لیکس کی وجہ سے ’کافی طاقتور‘ عناصر کے نشانے پر رہے انہوں نے بھی اندپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنے ادارے کو چھوڑ دیا ہے اور اب وہ اس وقت کچھ نہیں کر رہے اور فی الحال وہ صحافت سے کچھ عرصہ تک دور رہنا چاہتے ہیں کیوں کہ وہ جو لکھتے ہیں اس وقت اسے کوئی ادارہ چھاپنے کی ہمت نہیں کر پائے گا۔ یہی بات انہوں نے اپنے ایک ٹوئیٹ میں بھی کہی۔
سینئیر صحافی حامد میر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں آزادی صحافت کے بہت برے حالات ہیں۔ ورلڈ پریس فریڈم انڈکس 2019 کے مطابق پاکستان 142 نمبر پر چلا گیا ہے جو 2018 میں 139 ویں نمبر پر تھا اور جو صورتحال ہے اس کو دیکھ کر لگتا ہے کہ پاکستان مزید نیچے جائے گا۔
حامد میرکا کہنا تھا کہ ’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنسلسٹس کا جو گلوبل امپیونٹی انڈکس ہے اس میں پاکستان دنیا کے ان 12 ممالک میں شامل ہے جو میڈیا کے لیے بہت خطرناک ہیں۔ ریاست کہتی ہے صحافت آزاد ہے وزیر اعظم عمران خان امریکہ میں کھڑے ہو کر کہتے ہیں کہ صحافت آزاد ہے۔ پوری دنیا میں صحافیوں کی تنظیمیں پاکستان کو نشانہ بنا رہی ہیں کہ انہوں نے سٹیون بٹلر کو پاکستان کیوں نہیں اترنے دیا۔‘
’میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان ریاست اس وقت انکار کی حالت میں ہے وہ پوری دنیا اور عوام کے ساتھ بھی جھوٹ بول رہی ہے۔ آپ کسی سے بھی پوچھ لیں چاہے بچے سے پوچھ لیں کہ کیا پاکستانی میڈیا آزاد ہے تو وہ آپ کو بتائیں گے کہ میڈیا آزاد نہیں ہے مگر وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں میڈیا آزاد ہے ریاست کہتی ہے میڈیا آزاد ہے۔ ریاست جھوٹ بول رہی ہے اسے جھوٹ بولنا بند کرنا چاہیے۔‘