پاکستان میں صحافی تیزی سے غلط اطلاعات کا شکار ہو رہے ہیں، لیکن سب نہیں، بلکہ صرف ایسے نقاد صحافی غلط اطلاعات سے متاثر ہیں جو وفاق یا صوبوں میں مقتدر حلقوں کو چیلنج کرتے ہیں۔
پاکستان دوسرے بہت سے ممالک کے مقابلے میں مختلف ہے، جہاں صحافیوں کو درپیش خطرات کی فہرست اتنی طویل نہیں ہے جتنی ہمارے ہاں دکھائی دیتی ہے۔
عالمی یوم آزادی صحافت ہر سال تین مئی کو منایا جاتا ہے۔ اس سال آزادی صحافت کے دن کا مرکزی موضوع صحافت اور جمہوریت کے مابین تعلق ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو اور اس کے شراکت داروں نے ’غلط اطلاعات کے دور میں میڈیا برائے جمہوریت، صحافت اورانتخابات‘ کے عنوان کے تحت غلط خبروں یا معلومات سے صحافت اور صحافیوں کی ساکھ کو پہنچنے والے نقصانات کو نمایاں کیا ہے۔
صحافیوں کو درپیش خطرات کی فہرست ہر ماہ بنائی جاتی ہے، جس میں قتل کی دھمکیاں سرِفہرست رہتی ہیں۔
’مردہ‘ آزادی صحافت
ملک میں آزادی صحافت کی صورت حال پر ایک صحافی کی حالیہ ٹویٹ آپ کی نظروں سے ضرور گزری ہوگی۔ انہوں نے لکھا تھا: ’میڈیا اتنا ہی آزاد ہے جتنا مردہ قبر میں ہوتا ہے۔‘
کراچی کے صحافی شاہ زیب جیلانی کو سائبر کرائم کے مقدمے کا سامنا ہے۔ اس سے بھی زیادہ برا یہ ہے کہ انہیں بتایا گیا کہ انہیں ملازمت سے برطرف کر دیا گیا ہے کیونکہ ان کے سینیئر ’دباؤ‘ کا سامنا نہیں کر پائے تھے۔
ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے جب انہوں نے کراچی کی عدالت سے رجوع کیا تو پیشی کے دن محض چند ہی ساتھی ان کے ساتھ کھڑے تھے۔
شاہ زیب جیلانی پر مقدمے سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں صحافیوں کو کہیں زیادہ خطرناک صورت حال کا سامنا ہے۔ جب آجر یا ایڈیٹر ہی آپ کے ساتھ نہ کھڑے ہوں تو ایک صحافی کی کمزوری اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ ایسی صورت حال میں آزادی صحافت کے خلاف کام کرنے والی قوتوں کا کام آسان ہوجاتا ہے۔ اگر آجر یا ایڈیٹر آپ کی حمایت کریں جیسا کہ ڈان اخبار کے ’سیرل المیڈا‘ کے مقدمے میں ہوا تو آپ مضبوط ہوجاتے ہیں۔
صحافیوں کو جب اپنے دفاتر سے تعاون کی کمی ہوتی ہے تو ان کا کام اور بھی خطرناک ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں کام کرنے والے غیرملکی میڈیا ہاؤسز سے منسلک مقامی صحافیوں کو ادارے کا تعاون حاصل ہوتا ہے، جس کی بدولت وہ مضبوط ہیں اور مقامی میڈیا ہاؤسز میں کام کرنے والے صحافیوں کے مقابلے میں زیادہ محفوظ رہے ہیں۔
آزادی صحافت کی موجودہ صورت حال کی ایک وجہ صحافیوں اورمیڈیا مالکان کے درمیان اتحاد کا فقدان بھی ہے۔
جب تک موروثی میڈیا کا دوررہا مالکان متحد دکھائی دیے۔ غیرموروثی میڈیا کا دورشروع ہوا اور مالکان الگ الگ ہوگئے۔ کارکن صحافیوں کے درمیان گروہ بندی بڑھنے سے فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور صحافیوں کی علاقائی تنظیمیں کمزور ہوئیں۔
صحافتی تنظمیں اورمیڈیا مالکان متحد ہونے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن آزادی صحافت کے مخالفین اور بھی مضبوط ہو رہے ہیں۔
ملک بھرمیں موجود پریس کلبوں کا نیٹ ورک بھی موجودہ صورت حال میں کچھ نہیں کرپایا۔ بے یارومددگاری کی موجودہ صورت حال پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ کمزور پڑتی مزاحمت ہتھیار مکمل طور پر ڈالنے کی راہ ہموار کر رہی ہے۔
رضاکارانہ اور زبردستی کی سنسرشپ
ممتازصحافی سلیم صافی نے اپنے یکم مئی کے ہفتہ وار کالم میں لکھا کہ ابھرتی تحریک پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے بارے میں لکھنا کالعدم تحریک طالبان کے بارے میں لکھنے سے زیادہ خطرناک ہے۔
تحقیقاتی صحافی عمر چیمہ نے اپنی ٹویٹ میں کہا ہے کہ اب ایک ٹویٹ لکھنے میں زیادہ وقت لگتا ہے کیونکہ خطرے کا اندازہ کرتے ہوئے وہ ٹویٹ کو آن لائن پوسٹ کرنے سے پہلے اسے کئی بار تبدیل کرتے ہیں۔
سینئر صحافی طلعت حسین نے اپنے کالم اُس وقت ٹوئٹر اکاؤنٹ پر اَپ لوڈ کیے، جب ان کے اخبار نے انہیں شائع کرنے سے انکارکردیا تھا۔
خیبرپختونخوا میں ضلع خیبر کے علاقے باڑہ میں ایک صحافی کو دھمکیاں دی گئی ہیں۔ اس صحافی نے حیات آباد میں ہونے والے مقابلے میں متاثرہ خاندانوں کے ردعمل کے بارے میں خبر دی تھی۔ بعد میں اس صحافی کوملازمت سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔
پریس کلبز، پی ٹی ایم کے رہنماؤں کو اظہارِ خیال کے لیے جگہ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پشاور پریس کلب اور نیشنل پریس کلب اسلام آباد نے پی ٹی ایم قائدین کو اظہار خیال کے موقع دینے سے انکار کے لیے اپنی ہی وجوہات بیان کی ہیں، لیکن ناقدین یہ وجوہات قبول کرنے پر تیارنہیں ہیں کیونکہ ان کے خیال میں غیر سویلین ریاستی ادارے ہدایات جاری کر رہے ہیں۔
ریاستی اداروں کی منظوری سے نشر ہونے والے ٹی وی ٹاک شوز اور بیانات میں ملزم یا فریق مخالف کے موقف کو جگہ نہیں دی جاتی۔
سیاسی جماعتوں، سیاست دانوں اور مخالفین کو تنقید کا نشانہ بنانے کی مکمل آزادی ہے، مگر بلوچستان میں گم شدہ افراد کا مسئلہ ہو یا فوجی آپریشنز والے علاقوں میں انسانی حقوق کی صورت حال، اس پربات کرنا ’حرام‘ ہے۔
آزادی کی آخری سرحد
اطلاعات کی آخری سرحد انٹرنیٹ ہے، جسے یہاں حکام کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ماہرین کی رائے میں یہ آسان نہیں ہے۔ جعلی خبریں یا اطلاعات ایسی وجوہات پیدا کر رہی ہیں جن سے جواز پیدا ہوجاتا ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی طرح انٹرنیٹ کو بھی کنٹرول کیا جائے۔
اس سمت میں ایک قدم الیکٹرانک میڈیا کرائمزایکٹ 2016 ہے۔ اسی قانون کے تحت شاہ زیب جیلانی پر ان کی صحافتی ذمہ داریاں نبھانے اور ٹویٹ کرنے پر مقدمہ چلایا جارہا ہے۔
الیکٹرانک میڈیا کرائمز ایکٹ کی تیاری کے موقع پر میں نے آزادی صحافت کے دوسرے حامیوں کے ساتھ مل کر اس کی مخالفت کی تھی۔ ہم نے خبردار کیا تھا کہ اگر یہ قانون منظورہوگیا تو پاکستان سے صحافت ختم ہوجائے گی۔ اس وقت یہی کچھ ہو رہا ہے۔
جو کوئی ریاستی اداروں یا حکومت کو چیلنج کرتا ہے اس قانون کے تحت اس کے خلاف کارروائی کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کرائمزایکٹ کے تحت صحافیوں پر درجن سے زیادہ مقدمات بنائے گئے ہیں۔
انٹرنیٹ پر سرگرم سیاسی جماعتوں کے کارکن اور ہمدرد بھی جعلی خبریں پھیلانے کی وجہ سے آزادی صحافت اور صحافیوں کی ساکھ کے لیے ایک خطرہ ہیں۔ فوج بھی نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے کہ وہ اس جنگ میں مقابلے کے لیے انٹرن شپ حاصل کریں جیسے وہ ففتھ جنریشن جنگ کا نام دے رہے ہیں۔
صحافیوں کی عالمی تنظیم ’رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز‘ کی آزادی صحافت کے حوالے سے حالیہ رپورٹ میں پاکستان تین درجے نیچے گرگیا ہے۔ قومی میڈیا کو مضبوط کرتے ہوئے آزادی صحافت کی صورت حال کو بہتر نہ بنایا گیا تو ملک مزید نیچے جا سکتا ہے۔
(مصنف پاکستان میں رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز تنظیم کے نمائندہ اور فریڈم نیٹ ورک کے سربراہ ہیں۔)
.............................
نوٹ: مندرجہ بالا تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔