وہ کوئی آواز پیدا نہیں کرتا نہ حرکت کرتا ہے۔ کوئی الارم نہیں چل رہا۔ لیکن جس لمحے مارک ایلیزارٹ صبح اپنی آنکھیں کھولتے ہیں، ان کا کتا وہیں موجود ہوتا ہے، ان کا ہاتھ چاٹ رہا ہوتا ہے۔
یہ نہیں کہ ان کا دو سالہ سیاہ و سفید رنگ اور گھنگریالے بالوں والا کتا اسی کمرے میں سوتا ہے۔ لیکن جوں ہی انسان جاگتا ہے کتا بھی بیدار ہو جاتا ہے۔ اس کا الارم بج پڑتا ہے۔ یہ وہی چیز ہے جسے ’تال میل‘ یا دو دلوں کا اکٹھا دھڑکنا، لاشعوری یا ذہنی ملاپ کہہ سکتے ہیں۔ اور ایلیزارٹ انکشافات پر مبنی نئی کتاب ’ڈاگز‘ میں کہتے ہیں کہ یہ محض ارتقائی عمل کا حصہ ہے۔ ’ہر بات یہ بتاتی ہے کہ ہمارے درمیان ایک دماغ ہے، اور یہ کہ ہمارا ذہن کبھی مکمل نہیں ہوتا جب تک کہ وہ کتے کے ساتھ جوڑا نہ گیا ہو۔‘
ایلیزارٹ کے سابق ’بیگل‘ نسل کے کتے کا نام ’مارٹن لوتھر‘ تھا (انہوں نے جدیدیت پر کیسے اصلاح پسند مفکروں نے اثر ڈالا سے متعلق کتاب تحریر کی)۔ لیکن وہ کتا جب چھ ماہ کا تھا تو ایک پراسرار وائرس کے ہاتھوں مر گیا۔ جس کسی نے بھی کتے کو کھویا ہے وہ جانتا ہوگا کہ اگر وہ جوانی میں مرتا ہے تو اس کا زیادہ درد ہوتا ہے۔ ایلیزارٹ نے ایک سال تک اس کا سوگ منایا، وہ اپنے کتے کی تصاویر کے درمیان درد سے تقریباً مفلوج ہو گئے تھے۔
’مجھے کتابوں یا فلموں میں راحت نہیں ملی، صرف دوسرے کتوں کو دیکھنے سے درد کم ہوتا تھا۔‘ کم از کم مارٹن لوتھر (مفکر ناکہ کتا) نے سوچا کہ کتے بھی جنت میں جائیں گے: انہوں نے اپنے کتے سے کہا کہ ’آپ کی بھی حیات بعد الموت میں ایک چھوٹی سنہری دم ہوگی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایلیزارٹ کی پرورش لندن میں ہوئی اور وہ اگلے سٹیون ہاکنگ بننا چاہتے تھے۔ لیکن وہ اپنے سائنس کے امتحان میں بری طرح فیل ہوئے تھے۔ وہ پیرس منتقل ہو گئے اور لیسی ہینری چہارم سکول میں داخل ہو گئے۔ اس مرتبہ وہ فلسفے میں فیل ہوئے۔ وہ انگریزی اور فرانسیسی میں بھی ناکام رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں ہر چیز میں فیل تھا۔‘ کسی طرح سے انہوں نے معاصر آرٹ میں کام شروع کر دیا – صرف فنکار انہیں برداشت کر سکتے تھے۔ اور ایک کتا۔ کتے کے لیے ان کا ناکام ہونا بے معنی تھا۔ پھر انہوں نے وہ کتا کھو دیا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس خلا کو پر کرنے کے لیے جو انہیں خدشہ تھا کہ انہیں کھا جائے گا انہوں نے کتوں کے بارے میں ایک کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا۔
اگر آپ ایک ایسی کتاب کی تلاش میں ہیں جو آپ کو کتے کو سدھارنے کے بارے میں بتائے تو ڈاگز مت پڑھیں۔ بہتر ہے آپ یو ٹیوب پر ویڈیوز دیکھ لیں۔ یہ کتاب کتے کیا معنی رکھتے ہیں اس بارے میں ہے۔ یہ ’ڈاگ وینچی کوڈ‘ ہے جو بتاتے ہیں کہ کیسے کتے خفیہ طور پر دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ڈاگ کو اگر انگریزی میں الٹا لکھا جائے تو گوڈ بننا کوئی حسن اتفاق ہے۔ اور پراسرار ٹی وی سیریز اینوبس کو نہ بھولیں۔ یہ ایک فلسفی یا مشاہدہ (یا کم از کم سونگھنے) والے کتے کے بارے میں ہے۔ یہ کوئی حسن اتفاق نہیں ہے کہ ان کے موجودہ کتے کا نام قرون وسطی کے زبردست صوفی ماسٹر ایکہارٹ کے نام پر رکھا گیا ہے۔
میں اور ایلیزارٹ برٹش لائبریری میں ملے کیونکہ معروف امریکی مصنف اور مزاحیہ فنکار گراؤچو مارکس نے درست کہا تھا کہ ’کتے کے علاوہ انسان کا بہترین دوست ایک کتاب ہے۔‘ ہمارے کتے گھروں میں رہتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ میرا کتا (ویفل) تبدیلی کی خاطر اچھا رویہ رکھے گا۔ وہ پیچھے چھوڑے جانے پر غصے میں انتقام لیتا ہے۔ ایلیزارٹ کہتے ہیں کہ ’کتوں کو یقیناً ندامت ہوتی ہے۔ اگر آپ کو ہوتی ہے تو اسے بھی ہوتی ہے۔ میں جب اپنے کتے کو دیکھتا ہوں تو مجھے دراصل احساس ہوتا ہے کہ وہ بعض اوقات اس بارے میں سوچ رہا ہوتا ہے: کیا مجھے اس مزیدار ٹکڑے پر یلغار کرنا چاہیے یا نہیں؟ میں اسے اس کی آنکھوں میں دیکھ سکتا ہوں۔ وہ جانتا ہے۔ مجھے یقین نہیں کہ ویفل اس پر غور کرتا ہے کہ وہ ایک سنگدل صفائی کرنے والا ہے، جو دنیا کو گرے چھوٹے ٹکڑے صاف کرتا ہے اور ہمیشہ مرغی کے ہڈی کا منتظر ہوتا ہے۔
کتا کون رکھے گا؟ یہ سوال اس وقت پوچھا جاتا ہے جب آپ کے کتے نے آپ کے پسندیدہ کُشن کو چبا ڈالا، یا آپ کے قالین کا کباڑا کر ڈالا یا کسی قریب سے گزرنے والے سپینیل کتے کے ساتھ الجھ پڑتا ہے۔ میں نے آخر کتا رکھا کیوں ہے۔ اگر آپ ویفل کے پارک میں کسی کے سینڈوچ پر ہاتھ صاف کرنے سے اس سوچ میں زیادہ وقت لیتے ہیں تو آپ کچھ اس قسم کے نتیجے پر پہنچیں گے: کتا ایک ’پرمسرت بےوقوف‘ ہے۔ آپ کتے کے جذبے اور مسرت کو نہ دبانے کی صلاحیت کا مزا لیتے ہیں۔ کتا بغیر کسی کوشش کے وہ ذہنی کیفیت حاصل کر لیتا ہے جو ہم اکثر نہیں کرسکتے ہیں جو ہے ’اسی لمحے میں رہنا‘۔ وہ ماضی سے لاتعلق اور پرامید رہتا ہے جن پر پریشان کن بےہنگم خیالات اثرانداز نہیں ہوتے۔
لیکن آپ غلط ہوں گے۔ یہ درست ہے کہ کتے ٹیکسوں کے بارے میں زیادہ فکرمند نہیں ہوتے، مگر اگر آپ پریشان ہیں تو وہ بھی پریشان ہوگا۔ لیکن جیسے کہ ایلیزارٹ کہتے ہیں کہ ’وہ وقت کے ماہر ہیں۔‘ ہمیں اس کے مقابلے میں بینائی اور سننے کی صلاحیت چلاتی ہے جبکہ ان کو سونگھنے کی۔ ان کے ناک بڑے ہوتے ہیں (جیسے کہ ایک مرتبہ میں نے اسے ’ناک کا زبردست آرکیٹیکچر‘ قرار دیا گیا۔ حساس ناک ہونے کا مقصد اسے اکثر زمین کے قریب رکھنا اور ہر قسم کی بو سونگھنے کا مطلب ہے کہ کتے ماضی سے باخبر ہوتے ہیں کہ یہاں سے ایک نشانی چھوڑ کر کب کون گذرا تھا۔
ہر بو ایک اشارہ ہوتی ہے۔ ایک بلڈ ہاؤنڈ نسل کا کتا (یا لاسی یا رن ٹن ٹن) کسی تخریب کار کے تعاقب میں یا کسی گمشدہ جراب کے مالک کے شکار میں جرم کی تصویر کشی کر رہا ہوتا ہے۔
اسی طرح، کتا ہمہ وقت تیار ہوتا ہے (چاہے وہ واک ہو، ڈنر ہو یا کوئی گھر آیا ہو)۔ کسی نے کتے کو کسی انسان یا دوسرے کتے (یا ہاں بلی) کے مرنے پر سوگ
کرتے دیکھا ہوگا۔ وہ کہہ سکتا ہے کہ کتا اپنے حال میں مست ہوتا ہے۔ اگر وہ ٹینس کے گیند کے تعاقب میں ہم سے زیادہ مزا لیتے ہیں، اسی طرح وہ زیادہ درد بھی برداشت کر سکتے ہیں۔ افسوس کہ وہ امید، خدشات اور یادداشتوں سے مبرا نہیں ہیں۔
میرے خیال میں میرے والد نے کتا رکھا تھا (ہمیشہ باکسر نسل کا) محض برونو یا بروٹس کے ساتھ گفتگو کے لیے (یہ مانتے ہوئے کہ وہ یکطرفہ ہوتی ہیں)۔ کتا تحمل سے سنتا تھا، بعض اوقات اپنا سر توجہ میں ایک جانب لُڑکا دیتا۔ جواب قابل سماعت نہیں ہوتا تھا لیکن اس کا کوئی مسئلہ نہیں تھا کیونکہ میرے والد (اپنے زندگی کے آخری ایام میں) کچھ زیادہ سن بھی نہیں سکتے تھے۔ لہذا ہم کتوں کے ساتھ بات کرکے کیا کر رہے ہوتے ہیں؟
کتوں کے رویوں کی ماہر الیگزینڈرا ہورووٹز کتاب ’ہمارے کتے، اور ہم‘ میں کہتی ہیں کہ بنیادی طور پر ہم خود کلامی کر رہے ہوتے ہیں۔ عوامی مقامات پر کم از کم ہم پر اپنے سے بات کرنا ممنوع ہے۔ کیا یہ پاگل پن نہیں؟ لیکن کتے آپ کو موقع دیتے ہیں اپنا خیالات باہر لانے کا جو چاہے محض دائمی پرامید بات ’گوڈ بوائے!‘ یا ’تمھیں نہیں معلوم کہ کیسے رہنا ہے بوائے؟‘ یا پھر ہورووٹز نے نیویارک میں ریکارڈ کیے: ’آپ اپنی تشریف یہاں رکھیں، سن شائن‘ اور ’میں دیکھ رہا ہوں کہ تم عجیب حرکتیں کر رہے ہو۔ بند کرو اسے۔‘
ہورووٹز بڑے جواز کے ساتھ کہتی ہیں کہ ہمیں دکھائی نہیں دینا چاہیے کہ ہم اپنے کتوں کے ’مالک‘ ہیں۔ وہ زیادہ آزادانہ ذہن رکھتے ہیں۔ ہاں وہ ہماری ذمہ داری ہیں۔ اور ہمیں بھی ان کے بعد ان کا گند صاف کرنا چاہیے (میرے پاس ابھی بھی میری جیب میں بیگ ہے اس کا گند اٹھانے کے لیے)۔ لیکن یہ ایک طلاق کا مقدمہ سن رہے جج کے لیے صحیح نہیں ہو سکتا ہے (حقیقت کے طور پر) کہ ریسکیو کتے بارنی کی تحویل کے حقوق حاصل کرنا ایسے ہی ہے جیسے کہ ’ایک میز یا ایک چراغ سے ملاقات کا شیڈول حاصل کر رہے ہوں۔‘
ہو سکتا ہے کہ یہ کہیں زیادہ درست ہو کہ کتے ہمارے مالک ہیں۔ وہ جوڑ توڑ کے ماہر ہیں۔ ہم ان کے ماحول کا ایک لازمی حصہ ہیں۔ اور جیسے ایک کتا ایک آرام دے تکیا حاصل کرنے کے لیے گھوم گھوم کر چکر لگاتا رہے گا (اگرچہ وہ لکڑی کے فرش پر خود ہی اچھی طرح لیٹ سکتا ہے) وہ ہمیں چاٹ کر اپنی پسندیدہ صورت میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم ان کی تربیت نہیں کرتے، ان کے کام کرنے کی۔ مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجیے کہ ہر روز چند منٹ کی حوصلہ افزائی کے بدلے میں ایک کتا تیار ہوتا ہے (ایک درخت پر ایک کوالا یا ایک بھالو کے طرح) طویل عرصے تک کچھ نہ کرنے کا۔ ظاہر ہے جب میں ویفل کے ساتھ گلی میں واک کرتا ہوں تو مجھ سے اور میں اس سے جڑے ہوتے ہیں۔ لیکن عمومی طور پر ہم کسی سے منسلک ہونے کے متلاشی ہوتے ہیں۔ یا جیسے کہ فلسفی ڈونا ہاروے تجویز کرتی ہیں اپنی کپمینین سپیسز مینیفیسٹو میں کہ ہم ’ہڈیوں‘ والے ہیں۔ ہمیں توسیع اور اشیا کی ضرورت ہوتی ہے (جو ہمارے فون پر انحصار کو ظاہر کرتا ہے)۔
جیسے کہ کوئی ’فینٹم لیمب‘ کار شکار ہمارے دلوں میں کتا نما ایک سوراخ ہے (یا ہمارے دماغ میں) جب کتا نہیں ہوتا۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ میں جب کتے کے بغیر سفر کر رہا ہوتا ہوں تو کتے کا متمنی ہوتا ہوں۔
ہماری کتوں کے ساتھ تعلق - ہمارا تعاون - پتھر کے زمانے تک جاتا ہے، جب کچھ بھیڑیوں کو معلوم ہوا کہ انہیں انسانوں کو کھانے کی بجائے ان کو ساتھ رکھنا ان کے لیے زیادہ بہتر ہے۔ ہم نے ایک غیرمتوازن تعلق تیار کیا ہے۔ اب ہم ایک ’جذباتی کتے‘ کو بہترین دوست کے طور پر رجسٹر کر سکتے ہیں (اور اسے ہوائی جہاز پر ساتھ لے جا سکتے ہیں بشرط یہ کہ وہ اتنی دیر آپ کی گود میں بیٹھا رہے)۔ جو ایلیزارٹ بتاتے وہ یہ ہے کہ انسان اور کتے کے دماغ غیر معینہ دورانیے میں اکٹھے بڑھے ہیں۔ جیسے کہ ہمارا ایک کتے کا دماغ ہے ویسے ہی کتے کا انسانی دماغ ہے۔ یہ اتنا پاگل بیان نہیں جتنا کہ دکھائی دیتا ہے۔
یہ فریوڈ ہی تھے جو اس سوال کا کہ ہم کتوں کو اس شدت کے ساتھ پیار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ’(ان کی) بغیر کسی تضاد کے پیار، تہذیب کے ناقابل برداشت تنازعات سے آزاد زندگی، مکمل موجودگی کی خوبصورتی۔‘ کتے ہمیں بہت زیادہ تہذیب سے بچاتے ہیں۔ لیکن کتے ہمیں ہماری اپنی فطرت سے بچاتے ہیں۔ کتوں نے ہمیں انسان بنایا ہے، ہماری شیطانی جبلتوں سے۔ ایلیزارٹ اس چینی کہانی کا ذکر کرتے ہیں کہ جس میں ایک کتا اپنے فر میں بیچ انسان کے پاس لاتا ہے جہاں سے زراعت کا آغاز ہوا۔ المیہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی بےوقوفانہ خواہشیں کتوں پر مسلط کر دی ہیں۔
عمل نے فیشن کو راستہ دیا ہے۔ عجیب جینیاتی تجربات اور مختصر اور غیر صحت مند زندگی سے کتے پہلے ہی اکتائے ہوئے تھے۔ کتے آپ کس طرح نظر آتے ہیں اس بارے میں فکر نہیں کرتے، صرف آپ کی بو کیسے ہے (اور وہ شینل برینڈ کے پرفیوم کا مطالبہ نہیں کرتے ہیں)۔ لیکن کسی نہ کسی طرح ہم نے اپنے ظہور کو ان پر مسلط کر دیا ہے۔ ایلیزارٹ کے مطابق یہ مسئلہ 17 صدی تک جاتا ہے جب انسان دیہات سے شہر میں منتقل ہوگئے اور اپنے کتے اپنے ساتھ لے گئے لیکن انہیں کوئی مناسب کام نہیں دے سکے۔ شاید لیبراڈوڈل (اور دیگر اقسام) کتے کو بچا سکیں۔
ایلیزارٹ کو بلیوں میں دلچسپی نہیں ہے۔ ’میں کتوں اور بلیوں کے درمیان جنگ تازہ نہیں کرنا چاہتا۔ بلیوں ہمیں برداشت کرتی ہیں۔ یہ انتہائی مختلف ہے۔ کتے ہمارے دنیا میں ایک یا زیادہ ٹانگیں اڑاتے ہیں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ کتے قدرت کے کمیونسٹ ہیں۔‘ مجھے نہیں معلوم کہ ویفل اپنا ڈنر شیئر کرنا چاہے گا یا نہیں – مجھے اندازہ ہے کہ زیاد نہیں – لیکن وہ اپنی زندگی میرے ساتھ شیئر کرنے کو تیار ہے۔ لکھنے کے علاوہ کتا ہر وہ کام کرنے گا جو آپ کر رہے ہیں۔ میں ایک اچھے سرف کرنے والے کتے کو جانتا ہوں جو انسانوں سے زیاد اچھا سرف کرتا تھا (چار ٹانگیں ہونے کا فائدہ تو ہوتا ہے)۔
ہر کتا تاہم گیلا ہونا پسند نہیں کرتا۔ مجھے اپنا ایک پرانا کتا یاد ہے جو ہمیشہ پوڈلز کے اردگرد رہنا پسند کرتا تھا لیکن جب غسل کا وقت آتا تھا تو لرزنا شروع کر دیتا تھا۔ میں نے اسے کبھی سرف بورڈ پر لیجانے کی کوشش نہیں کی۔ وہ شاید خوش رہے میرے دوست کی طرح جو اپنے کتے کے ساتھ تین ہزار کلومیٹر دوڑ لگا چکی ہے۔ شاید ہم نے کتوں سے دوڑنا سیکھا۔
میں ایک ایسی عورت کو جانتا ہوں جس نے حال ہی میں کتے کے کریٹ میں اپنے شوہر کو ڈالنے کی کوشش کی۔ یا شاید وہ وہاں خود اپنی مرضی سے پہنچے۔ وہ بس مشکل سے اس میں آسکے۔ انہیں باہر آنے میں ان کی بیوی نے مدد کی۔ اس نے دروازہ بند کر کے اس کی مدد کی. اس نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ یہ آرام دہ اور تسلی بخش تھا۔ سنوپی نے پہلی عالمی جنگ میں لڑاکا طیارہ اڑانے کا خواب دیکھا تھا۔ کس نے کتے کو کسی باسکٹ میں یا کسی صوفے پر آرام کرتے نہیں دیکھا اور سوچا کہ میں کتا بننا چاہوں گا؟
اینڈی مارٹن ’ود چائلڈ: لی چائلڈ اینڈ دی ریڈرز آف جیک ریچر‘ کے مصنف ہیں۔
© The Independent