اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ہاسٹلز کی عدم دستیابی کے باعث ملک کے دور دراز علاقوں سے اسلام آباد آنے والا طلبہ نجی ہاسٹلز میں رہنے پر مجبور ہیں اور اب وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ کی جانب سے ان ہاسٹلوں کی بندش کے خلاف طلبہ نے احتجاج کیا ہے۔
طلبہ نے اسلام آباد پریس کلب سے سپر مارکیٹ کی جانب مارچ کیا۔ اس مارچ میں سٹوڈنٹ ہاسٹلائٹس ایسوسی ایشن، پروگریسیو سٹوڈنٹس فیڈریشن اور عوامی ورکرز پارٹی کے کارکنان اور بڑی تعداد میں طلبہ نے شرکت کی۔ ان طلبہ نے گھروں میں مشترکہ رہائش یا نجی ہاسٹلز میں رہائش اختیار کی ہوئی ہے، جسے کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) گھریلو املاک کا کاروباری استعمال بتا کر بند کر رہی ہے۔
مارچ میں شریک طلبہ نے اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے جبری بے دخلیوں پر احتجاج کیا اور تعلیمی اداروں کو طلبہ کو رہائش کی سہولت فراہم نہ کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے طالب علم اورسٹوڈنٹ ہاسٹلائٹس ایسوسی ایشن کے رکن امتیاز ملاح نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب تعلیمی ادارے دور دراز علاقوں سے آنے والے طلبہ کے لیے رہائش نہیں دے سکتے ہیں تو وہ دیگر طلبہ کے ساتھ مل کر مشترکہ رہائش اختیار کرنے یا رہائشی علاقوں میں بنے نجی ہاسٹلوں میں رہائش اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ لیکن اسلام آباد انتظامیہ تعلیمی اداروں کی رہائش مہیا نہ کرنے کی ناکامی کی سزا طلبہ کو دے رہی ہے۔
عوامی ورکرز پارٹی کے رہنما عمار رشید نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ایئر یونیورسٹی، نسٹ، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اور بحریہ یونیورسٹی کے نزدیک طلبہ کی رہائش کا کوئی انتظام نہیں جبکہ اسلامک یونیورسٹی، کامسیٹ اور قائداعظم یونیورسٹی میں ہاسٹل کی سہولت ناکافی ہے جس کے باعث طلبہ نجی ہاسٹلز میں رہنے پر مجبور ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عمار رشید نے مطالبہ کیا کہ تمام یونیورسٹیز طلبہ کو ہاسٹل کی سہولیات فراہم کریں اور جب تک یونیورسٹیز میں طلبہ کی ہائش کا انتظام نہیں کیا جاتا، سی ڈی اے کو پرائیویٹ ہاسٹلز کو بند کرنے سے فی الفور روکا جائے۔ انہوں نے اسسٹنٹ کمشنر اسلام آباد سے طلبہ سے ہتک آمیز رویے پر معافی مانگنے کا مطالبہ بھی کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’رہائشی علاقوں کے فلیٹس اور پورشن طلبہ کو نہیں ملتے۔ شہر کی انتظامیہ کو تعلیم دوست اور طلبہ دوست بننا چاہیے طلبہ دشمن نہیں۔‘
نجی ہاسٹل میں رہائش پذیر ایک طالب علم نے کہا کہ حکمرانوں نے آئے روز ان کے لیے نیا مسئلہ پیدا کیا ہوتا ہے۔ ’ہم دور دراز کے گاؤں گوٹھوں سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے یہاں آتے ہیں۔ ہم غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور بڑی مشکلات سے یہ اخراجات برداشت کرتے ہیں۔ سی ڈی اے آئے روز اس شہر میں ایک نیا ڈرامہ رچا دیتی ہے۔ کبھی کہتے ہیں ہم منشیات فروشی کرتے ہیں، کبھی کہا جاتا ہے ہم کالے دھندے کرتے ہیں اور کبھی ہماری رہائش ہی غیر قانونی ہے۔ اس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ ڈی سی اسلام آباد کہتے ہیں کہ اگر آپ مہنگی جگہوں پر رہنے کے قابل نہیں تو اس شہر سے چلیں جائیں۔‘
پروگریسیو سٹوڈنٹس فیڈریشن کے عون المنتظر، دانش یاسین، شہنیلہ، ثنا افراز، آغا جلیل اور منہاج العارفین نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سی ڈی اے نہایت ہی غلط انداز میں اسلام آباد میں کام کر رہی ہے۔ یہاں محض دکھاوے کے کام کیے جاتے ہیں۔ ’سی ڈی اے بنی گالا کو ماسٹر پلان بدل کے ریگولرائز کرسکتا ہے تو طلبہ کی سکونت کے مقام کیوں نہیں بنائے جاسکتے؟ کیا شہر محض امراء کے لیے ہے۔ ہم اس ملک کا مستقبل ہیں اور ہم اس ملک کے مستقبل کو شاہراؤں پر نہیں رلنے دیں گے۔‘
عوامی ورکرز پارٹی کی رہنما طوبیٰ سید نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سی ڈی اے کا انداز نہایت ہی ظالمانہ ہے۔ کبھی گھروں کو مسمار کرنے پہنچ جاتے ہیں، کبھی کھوکھوں کو مسمار کرتے ہیں تو کبھی طلبہ کے رہائشی مسائل بڑھانے پہنچ جاتے ہیں۔ کوئی تعمیری کام کرتے نہیں دیکھا گیا، نہ ہی کوئی تعمیری کام کی کوشش کرتے ہیں۔ ’شہر میں پانی کے فلٹریشن پلانٹس کی کمی ہے، رہائش کا بحران ہے، بنیادی تعلیم کے اسکولز کی اشد ضرورت ہے مگر سی ڈی اے محض ناجائز کا ڈرامہ رچاکر آئے دن نوٹس لے کے پہنچ جاتی ہے۔‘