گورنام سنگھ نے اپنے بیٹے دلیر سنگھ سے پوچھا کہ تمہارے رزلٹ کا کیا بنا؟ اس نے جواب دیا، ’ٹیچر کہہ رہی ہے کہ تمہیں اسی کلاس میں ایک سال اور لگانا پڑے گا۔‘
سردار نے خوش دلی سے کہا، ’بیٹا، سال چاہے دو اور لگانے پڑیں مگر یاد رکھو، کبھی فیل نہیں ہونا!‘
اپنی عمر عزیز کا نصف حصہ ہم نے سرکاری سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی خاک چھاننے میں صرف کیا ہے۔ رٹّا جاتی علم کے اس گرد گرد سفر میں دلیر سنگھ جیسے حالات کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر ہم نے تعلیم کے ساتھ پنجہ آزمائی ترک کی، نہ لاعلمی سے محبت۔
اپنی بات کی وضاحت ہم یوں کریں گے کہ اس سے بڑا جھوٹ کوئی نہیں کہ ہم اپنے زمانہ طالب علمی میں ہونہار طلبہ میں سے تھے اور اس سے بڑا سچ کوئی نہیں کہ ملک میں رائج ناقص نظام تعلیم کی بدولت ہم ایم اے اورقانون کی ڈگریاں بھی لے اڑے۔ البتہ جہاں تک علم کا تعلق ہے تو ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں، جہاں پہلے دن سکول جاتے ہوئے موجود تھے۔
والدین کے پُر زور اصرار پر جب ہم گاؤں کے سرکاری پرائمری سکول میں داخل ہوئے تو ایک قاعدہ، تختی، سلیٹ، قلم دوات، ملیشیا کی شلوار قمیص اور سینڈل کا جوڑا ہمارا کل اثاثہ تھا۔ اس سکول کی عمارت درس و تدریس کے علاوہ بھیڑ بکریوں کے باڑے کے طور پر بھی استعمال ہوتی تھی۔ رات کو خدا کی ایک مخلوق جن کمروں میں آرام کرتی، دن کو تقریباً ویسی ہی ایک مخلوق وہاں زیورِ تعلیم سے آراستہ ہوتی۔ صبح جب ہم سکول پہنچتے تومخلوقِ اول چراگاہ میں جانے کے لیے وہاں سے نکل رہی ہوتی۔
کیا عجب کہ ہمیں دیکھ کر ان کے جذبات اسد اللہ خان جیسے ہوتے ہوں کہ
کہاں میخانے کا دروازہ غالبؔ اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں، کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
سچی بات ہے کہ ہمیں ہر صبح اپنے سکول سے بھیڑ بکریوں کے نکلنے پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ ویسے بھی ہماری ہرحکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ سرکاری سکولوں سے بھیڑ بکریاں ہی نکلیں!
ایک شب اس سکول میں بھانڈوں کا تماشا بھی ہوا۔ ایک بھانڈ نے دوسرے سے پوچھا کہ ’تمہاری تعلیم کتنی ہے؟‘
اس نے جواب دیا، ’نو بوریاں، تیرہ توڑے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہم بھانڈ کے پاس علم کی فراوانی سے بہت متاثر ہوئے۔ تب جب کلاس میں ہمارے پلے کچھ نہ پڑتا تھا تو ہم دوستوں کے ساتھ گلی ڈنڈا کھیلتے اور کلاس میں ’ایک دونی، دونی۔ دو دونی چار‘ کو با آواز بلند رٹّا لگاتے سوچتے کہ پانچویں جماعت کے بچوں کے پاس ’کافی توڑے‘ علم اکٹھا ہو چکا ہوگا۔
پھر ہم پانچویں جماعت میں بھی پہنچ گئے مگر معلوم ہوا کہ اس سٹیج پر بھی بچوں کے دامن میں توڑے تو کجا، پاؤ بھر علم بھی نہیں ہوتا۔ یہاں آ کر ہمارا نقطۂ نظر تبدیل ہوا اور ہم نے آٹھویں کلاس کے بچوں کو فَر فَر ’مائی بیسٹ فرینڈ‘ کا مضمون سناتے دیکھ کر خیال کیا کہ اصل علم تو ان کے پاس ہے۔ آٹھویں میں بھی ہم کورے ہی رہے تو سمجھ آئی کہ حقیقت میں میٹرک کے طلبہ علم کی ندیاں ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ میٹرک پاس ڈائریکٹ ڈھول سپاہی بھی بھرتی ہو سکتا ہے۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ میٹرک کی سند اور شرمندگی اکٹھی ہماری ہاتھ لگی کیونکہ ابھی تک ہماری معلومات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا تھا۔ تب ہمیں معلوم ہوا کہ گیان و ہنر کے دریا تو کالج میں بہتے ہیں اور ایف اے پاس اصل علامہ ہوتا ہے۔ رٹّا شٹا لگا کر یہ امتحان بھی پاس کر لیا مگر علم کی صورتحال جوں کی تُوں رہی۔
پھر کسی نے بتایا کہ مایوسی کی ضرورت نہیں، گریجویٹ صحیح معنوں میں علم کا سمندر ہوتا ہے۔ ہم نے پھر کمر کس لی اور جیسے تیسے ٹیسٹ پیپروں اور دیگر ہتھکنڈوں سے اس ڈگری پر بھی ہاتھ صاف کر لیا۔ اب جب ہم گورنر پنجاب کے دستخطوں سے مزین ایک مربع گز کی بی اے کی ڈگری کو دیکھتے اور پھر اس کی رُو سے اپنے علم کا جائزہ لیتے تو سخت مایوسی ہوتی۔
علم پر دسترس کے شوق میں ماسٹر ڈگری کی کوہ پیمائی کے دوران ہمیں یقین تھا کہ اب تو ہم خود بھی یہاں سے علم و دانش کے کوہِ گراں بن کر ہی اتریں گے۔ مگر صد افسوس، ایم اے کی ڈگری کے حصول کے بعد اس بوری سے بھی ریت ہی نکلی۔
پھر جب ہم نے خاندانی دیوانی مقدمات لڑنے کا چارج سنبھالا اور کچہری میں وکلا کی دھواں دھار قانونی بحثیں سنیں، تب ہوش آیا کہ تعلیم کی انتہا تو وکالت ہے کہ یہاں کی دانش کے آگے سقراط بھی پانی بھرتا ہے۔ بس صاحبو، ہم نے ایل ایل بی کا امتحان بھی پاس کیا مگر آپ سے کیا پردہ، علم و شعور سے ہم کورے ہی رہے۔ آخری کوشش کے طور پر ہم نے کالم نگاری کرکے بھی دیکھ لیا کیونکہ کالم نگاروں کو لوگ دانشور کہا کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ بھی آپ کے سامنے ہے۔
آج جب تعلیم کی بوریاں اور توڑے باندھ کر ہمارے کلاس فیلوز میں سے کوئی چاک گریباں اپنے گریباں کی بجائے معاشرے کی فکری رَفو گری پر مامور ہے، کوئی انجمن سوداگران بہشت سے وابستہ ہو کر اپنی گراں قدر خدمات انجام دے رہا ہے اور کوئی سوشل میڈیا پر اپنے علم کی ریت اُڑا رہا ہے تو ہم آپ کو بتانا چاہتے ہیں کہ حصول علم کے اس سنہرے دور میں گھر میں ہمیں ’ایک تھا بادشاہ...‘ اور سکول میں پیاسا کوا، لالچی کتا، چالاک لومڑی اور بے وقوف گدھا جیسی سبق آموز کہانیاں تو بہت رٹائی گئیں مگر جمہوریت اورانسانوں کے متعلق ہم نے ذرا کم ہی پڑھا ہے۔
مسخ شدہ تاریخ جس کا عملی زندگی میں کوئی فائدہ نہیں تھا، ہم نے گھوٹ گھوٹ کر پی مگر تاریخ سے سبق حاصل کرنے کا کوئی قرینہ نہ بتایا گیا۔ سوال کرنے کی اجازت نہ تھی کہ اس معاملے میں تخریبی شور شرابا نہیں بلکہ تعمیری خاموشی ہماری روایت ہے۔ ہم نے ایسی نستعلیق اخلاقیات تو بہت سیکھیں مگرعلم سے کوسوں دور رہے۔
البتہ اس ’تعلیمی تجربے‘ کا اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ ہم معقولیت اورحقائق سے عاری بے سروپا کہانیاں، محبوبہ کو لغویات سے بھرپور خطوط اور سرکاری صاحب بہادران کے نام بھیک مانگنے کے انداز میں نوکری کے لیے درخواستیں لکھنے کے گر سے خوب آشنا ہوگئے۔
واللہ! ایسے شہ پاروں میں خود سپردگی اور خُوئے غلامی کی کیسی کیسی شاندار مشرقی اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں… ایک تھا عادل بادشاہ … رعایا خوشحال تھی … شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے تھے (سب جھوٹ) تم میری پہلی اور آخری محبت ہو … تمہارے بغیر میں زندہ نہیں رہوں گا… سورج تمہیں دیکھنے کے لیے طلوع ہوتا ہے … مہتاب تیری زلفوں کے سائے میں نکلتا ہے (سفید جھوٹ) بحضور جناب … بخدمت جناب … بصد ادب التماس ہے … خدا آپ کا اقبال بلند کرے … اپنے زیر سایہ ملازمت بخش کر مشکور فرمائیں (جیسے اُس نے اپنے باپ کے فارم ہاؤس پر ملازم رکھنا ہے)۔
حصول علم کے اس سفرکے دوران رٹاجاتی نظام تعلیم تبدیل ہوا، نہ لاعلمی سے ہمارا روایتی عشق ماند پڑا۔ ایسے آئیڈیل ماحول میں ہمارے دماغ میں جتنی گنجائش تھی، اتنی بوریاں علم سما گیا۔
ایک بات ہم دعوے کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اس تعلیم نے ہمیں مطالعہ کا اعلیٰ ذوق بخشا ہے۔
ابھی کل کی ہی بات ہے، ہم نے ایک خوش شکل سی خاتون سے کہا کہ ’میں تمہیں کھلی کتاب کی مانند پڑھ رہا ہوں۔ اس نے جواب دیا، ’ضرور پڑھو مگر اندھوں کی طرح ٹٹول کر نہیں!‘