عمران خان کی حکومت کے خلاف جمعیت علمائے اسلام ۔ ف کے آزادی مارچ کا آغاز اتوار کو کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ سے ہو گیا۔
روانگی کے لیے صبح گیارہ بجے کا وقت مقرر ہونے کے باوجود دوپہر دو بجے کے قریب قافلہ روانہ ہوا۔ جلسے میں دور دور تک کسی خاتون کا نام و نشان نہیں تھا اور مجھے رپورٹنگ کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی کیوں کہ میں ایک عورت ہوں۔
غالباً اس مارچ میں خواتین کو شرکت کرنے کی اجازت نہیں کیوں کہ میں مرکزی سٹیج سے ایک میل کے فاصلے پر گاڑی میں موجود تھی اور میں نے جتنی بار بھی گاڑی سے اتر کرمارچ کی رپورٹنگ کرنے کی کوشش کی، مجھے جلسے کے شرکا میں سے کوئی نہ کوئی واپس گاڑی کی طرف بھیج رہا تھا۔
وزارت داخلہ نے جے یو آئی ۔ف کی رضا کار فورس ’انصار السلام‘ پر پابندی عائد کی ہے لیکن یہاں ایک خاکی وردی والے رضاکار نے انتہائی بد تمیزی سے مجھے کہا کہ میری موجودگی سے مارچ کا ماحول خراب ہورہا ہے۔
شاید کچھ قارئین یہ سوچیں گے کہ میرا لباس مناسب نہیں تھا، لیکن میں واضح کر دوں کہ سر سے پاؤں تک میرا جسم ڈھکا ہوا تھا اور سر پر دوپٹہ بھی موجود تھا۔
ایک موقعے پر میں نے گاڑی سے باہر آکر کیمرا سیٹ کرنے کی کوشش کی تو سفید لباس میں ملبوس ادھیڑ عمر آدمی نے انتہائی اونچی آواز میں کہا ’آپ یہاں پر کیا تماشا لگا رہی ہیں، یہ آزادی مارچ ہے یہاں عورتیں رپورٹنگ نہیں کرتیں۔‘
اسی طرح ایک اور شخص نے مجھے گاڑی میں واپس بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’تم عورت ہو تمہیں شرم نہیں آتی، یہاں بے حیائی مت پھیلاؤ۔‘ آخراپنا کام کرنے میں یہ کون سی بے حیائی ہے؟ مجھے سمجھ نہیں آیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان تمام مشکلات کے باوجود میں نے اپنا کام مکمل کیا، لیکن آخر یہ کس قسم کا آزادی مارچ ہے، جہاں ایک عورت کو عزت سے کام کرنے کی آزادی تک نہیں۔ میرے کچھ نہ کہنے اور کرنے کا باجود خود بخود ’آزادی مارچ ‘کا ماحول کیسے خراب ہورہا تھا؟
مارچ کا غیر متاثر کن آغاز
آج مارچ کی تیاریوں کے آغاز سے لے کرسکھرکی جانب روانگی تک کراچی کو پورے ملک سے جوڑنے والی انتہائی اہم ترین ایم نائن شاہراہ تقریباً پانچ گھنٹے تک دونوں اطراف سے مکمل طور پر بند تھی۔
مارچ میں مسلم لیگ ن، اے این پی، پاکستان پیپلزپارٹی اور جمعیت علمائے اسلام ف کے سیاست دان اور کارکنان موجود تھے۔
اے این پی کی نمائندگی شاہی سید جبکہ ن لیگ کی نمائندگی سابق گورنر سندھ محمد زبیر کررہے تھے۔ کہا جارہا تھا کہ سکھر سے بلاول بھٹو زرداری بھی مارچ میں شامل ہوں گے۔
کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ کے رہنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ الآصف سکوائر کے سامنے موجود پیدل چلنے والوں کے لیے مخصوص پُل کی کیا اہمیت ہے، کیوں کہ نیشل ہائی وے کی طرف جانے اور وہاں سے آنے والی سڑک کے درمیان کافی اونچی دیوار ہے۔ اس وجہ سے سب سےزیادہ رش اس پُل پر تھا، جس سے نہ صرف جلسے کے شرکا گزرنے کی کوشش کر رہے تھے بلکہ کراچی سے دیگر شہروں کی طرف روانہ ہونے والے مسافر اپنا سامان جلسے کے شرکا سے بچانے کے لیے پل پر رکھ کر کئی گھنٹوں سے بیٹھے تھے۔
مولانا فضل الرحمان نےجلوس سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ابتدا سے ہی چار لاکھ افراد آزادی مارچ کے ہمراہ سکھر کی جانب بڑھ رہے ہیں لیکن ان کا اندازہ غلط تھا، میرے اندازے کے مطابق مارچ کے لیے چند ہزار افراد شریک تھے اور اس کی بھی آدھی تعداد سکھر کے لیے روانہ ہوئی۔
آج کراچی سے روانہ ہونے ہونے والا مارچ نیشنل ہائی وے پر نواب شاہ، نوشہرو فیروز اور خیرپور سے ہوتے ہوئے رات دیر گئے سکھر پہنچے گا، جہاں قیام کے بعد پیر کو یہ قافلہ پنو عاقل اور گھوٹکی سے ہوتا ہوا کموں شہید اور وہاں سے پنجاب کی حدود میں داخل ہوگا ۔