پنجاب کے ضلع رحیم یار خان میں جمعرات کی صبح کراچی سے راولپنڈی جانے والی تیزگام ایکسپریس میں آگ لگنے کے نتیجے میں کم از کم 73 ہلاکتوں کے بعد وزیر ریلوے شیخ رشید کے استعفے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
تحصیل لیاقت پور میں تیز گام ٹرین کی تین بوگیوں کو لگنے والی آگ میں متعدد زخمی بھی ہوئے، جبکہ ہلاک ہونے والوں میں سے 30 کا تعلق میر پور خاص سے بتایا جاتا ہے۔
وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے ٹوئٹر پر جاری ایک ویڈیو پیغام میں بتایا: ’اکانومی کوچ میں تبلیغی جماعت کے افراد ناشتہ بنا رہے تھے، جس کے دوران سلنڈر پھٹ جانے سے دھماکا ہوا، اور آگ لگ گئی۔‘
حادثے کے بعد سوشل میڈیا پر وزیر ریلوے سے استعفے کے مطالبوں پر مبنی ٹوئٹس زور پکڑ گئیں۔ استعفے کا مطالبہ کرنے والوں پاکستان پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو زرداری، نفیسہ شاہ، شہباز شریف کے بیٹے سلیمان شہباز، سماجی کارکن جبران ناصر اور انور بیگ شامل ہیں۔
PM should keep his pre-election promise and sack the minister until investigation is complete. Will be leaving for Rahimyar Khan tomorrow on a pre-scheduled jalsa. Will inquire about the victims. Thoughts & prayers with the victims and their families. 2/2
— BilawalBhuttoZardari (@BBhuttoZardari) October 31, 2019
And the railway minister says he will not resign . Shame on him https://t.co/Qxr4LS3daY
— Suleman Sharif (@SulemanSharif82) October 31, 2019
We must demand accountability on #Tezgam disaster. Not another heartfelt speech but accountability. If Railways Minister doesn't have the decency to resign then PM should show some and sack him immediately. This was a preventable disaster. It only required better monitoring.
— M. Jibran Nasir (@MJibranNasir) October 31, 2019
ٹی ایچ کیو میں موجود 58 لاشیں ناقابلِ شناخت ہیں، 13 لاشیں شناخت کے قابل لیکن جھلسی ہوئی ہیں جبکہ دو افراد کی موت فریکچر کے باعث ہوئی۔
ٹی ایچ کیو کے مطابق واقعے میں زخمی ہونے والوں میں ایک خاتون جبکہ 39 مرد ہیں۔ زخمیوں میں سے نو کو بہاولپور وکٹوریا ہسپتال، نو کو کمبائنڈ ملٹری ہسپتال اور 22 کو شیخ زید ہسپتال منتقل کیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نامہ نگار امر گرڑو کے مطابق کراچی سے راولپنڈی جانے والی تیز گام ایکسپریس میں آگ لگنے کے نتیجے میں ہلاک 73 افراد میں 30 کا تعلق سندھ کےضلع میرپور خاص سے بتایا جا رہا ہے۔ ہلاک ہونے والوں کے خاندانوں کو معلومات دینے کے لیے میرپورخاص پولیس کے جانب سے ریلوے سٹیشن پر ایک کیمپ قائم کر دیا گیا ہے۔
کیمپ کے انچارج جواد احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے پاس اب تک جو فہرست آئی ہے اس کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں 30 اور زخمی ہونے والوں میں 32 کا تعلق میرپورخاص ضلع سے ہے۔
’مگر یہ حتمی فہرست نہیں ہے کیوں کہ ملتان سے کوئی معلومات نہیں آرہی۔‘
دوسری جانب کمشنر میرپور عبدالوحید شیخ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہلاک ہونے والوں میں سے اب تک میرپورخاص سے تعلق رکھنے والے تین افراد کی تصدیق ہوسکی ہے۔ ان کے مطابق متاثرہ ٹرین پر میرپور خاص ڈویژن کے ٹوٹل 84 افراد سفر کر رہے تھے جن میں 74 کا تعلق میرپورخاص شہر سے جبکہ 10 افراد عمرکوٹ ضلع کی تحصیل کُنری کے رہائشی تھے۔
’مسافروں نے چلتی ٹرین سے چھلانگ لگائی‘
عینی شاہدین کے مطابق لوگوں نے اپنی جان بچانے کے لیے چلتی ٹرین سے چھلانگ لگا دی، جس کے نتیجے میں ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔
حیدر آباد کے محمد آصف علی نے بتایا: ’جماعت کے لوگ حیدرآباد سے آرہے تھے۔ صبح ناشتہ بنانے کے لیے انہوں نے گیس کے سلنڈر والا چولہا جلایا۔ جوں ہی چولہا جلا اس سے آگ بھڑک اٹھی اور پیچھے کی دو بوگیوں تک پہنچ گئی۔ لوگوں نے جان بچانے کے لیے بوگیوں سے چھلانگ لگا دی اور کچھ بوگیوں کے اندر پھنس کر رہ گئے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ گاڑی کو رکنے میں پانچ منٹ لگے۔ اتنی دیر میں تین بوگیاں جل گئیں۔ گاڑی شہر سے کچھ دور تھی، جس کی وجہ سے ایمبولینس گاڑیوں اور امدادی ٹیموں کو پہنچنے میں دیر لگی۔ علاقے کے لوگوں نے موقع پر پہنچ کر متاثر ہونے والے افراد کی مدد کی۔‘
وزیر ریلوے کے مطابق واقعے میں ہلاک زیادہ تر افراد کا تعلق تبلیغی جماعت سے ہے۔ ٹوئٹر پر جاری اپنے پیغام میں انہوں نے کہا: ’اس واقعے میں ریلوے کی نہیں، مسافروں کی غلطی ہے کہ وہ سلنڈراور چولہے لے کر ٹرین میں سوار ہوجاتے ہیں۔ لیکن یہ ہماری کوتاہی ہے کہ وہ چولہے لے جانے میں کامیاب ہوگئے۔‘
شیخ رشید احمد نے مزید کہا کہ ’تبلیغی جماعت کے امیر کے کہنے پر ہم نے دس دن کے لیے اس ٹرین کو یہ سٹاپ دیا تھا، لیکن اب میں خود امیر صاحب سے ملاقات کرکے درخواست کروں گا کہ ایسا نہ کیا جائے۔‘
پاکستان فوج کے ایک بیان کے مطابق فوجی جوانوں نے بھی امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیا اور زخمیوں کی منتقلی کے لیے ملتان سے ہیلی کاپٹر حرکت میں لایا گیا۔
وزیر ریلوے کے مطابق آگ ٹرین کی تین، چار اور پانچ نمبر بوگی میں لگی، جن میں سے ایک بزنس جبکہ دو اکانومی تھیں۔
تیز گام ایکسپریس میں عمومی طور پر ایک پاور وین، ایک ڈائننگ کار اور 15 سے 16 بوگیاں ہوتی ہیں، جن میں تقریباً 75 افراد کی گنجائش ہوتی ہے لیکن رَش کے باعث لوگ اوپن ٹکٹ لے کر بھی سفر کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایک بوگی میں تقریباً سو کے قریب افراد کی موجودگی کی اطلاعات ہیں۔
ٹرین میں لگنے والی آگ کو بجھا دیا گیا۔ (اے ایف پی)
ڈی سی ریلوے کراچی جنید اسلم کے مطابق تینوں بوگیوں کے زیادہ تر مسافروں کے ٹکٹ ایک ہی شخص کے نام جاری ہوئے، جس کی وجہ سے متاثرہ افراد کی انفرادی شناخت میں مشکل پیش آئی۔
فائر بریگیڈ کی 12 گاڑیوں نے آگ بجھانے کے عمل میں حصہ لیا جبکہ ترجمان ریلوے کے مطابق دونوں ٹریک کلیئر کردیے گئے ہیں اور ٹرین ٹریفک معمول کے مطابق چل رہی ہے۔