کسی ناخوشگوار واقعے کی اطلاع نہیں ملی!

میڈیا کی جانب سے حکومت کی کوریج دیکھ کر ضیا الحق کا دور بہت یاد آتا ہے کہ اگر وہ ہوتے تو کیا ہوتا۔

(پی ٹی وی)

میں اور میری تنہائی، اکثر یہ باتیں کرتے ہیں … تم ہوتیں تو کیسا ہوتا … تم یہ کہتیں، تم وہ کہتیں …تم اس بات پہ حیراں ہوتیں … تم اس بات پہ کتنی ہنستیں … تم ہوتیں تو ایسا ہوتا …تم ہوتیں تو ویسا ہوتا۔

جاوید اختر کی دل کے تار چھیڑنے والی اس نظم کی بازگشت ہمیں اکثر سنائی دیتی ہے۔ میڈیا پر سخت پابندیوں کے باوجود ہم آزادی مارچ، حکومت مخالف جلسوں، عدالتی فیصلوں اور حکومتی نااہلیوں کی کوریج، خبریں اور تجزیے دیکھتے ہیں تو ضیا الحق کا سنہرا دور بہت یاد آتا ہے۔ خیال آتا ہے کہ آج وہ ہوتے تو کیسا ہوتا؟

ایسا ہوتا کہ اول تو شہید کے اسلامی دورِ خلافت میں کسی غیر سرکاری مارچ، ریلی یا دھرنے جیسے غیر اخلاقی واقعات پیش ہی کیوں آتے؟ ا گر کوئی چھوٹا موٹا حادثہ ہو بھی جاتا تو میڈیا کی یہ مجال کہ مارچوں، متنازع عدالتی فیصلوں اور ارباب حکومت کی بے وقوفیوں پر تبصرے کرتا پھرتا؟ سچ تو ہے کہ امیرالمومنین کے صالح عہد میں دو چیزیں سختی سے بین تھیں، ایک ’عورت کا ننگا سر‘ اور دوسری ’سچ‘۔ اخلاقی اقدار اس قدر راسخ ہو چکی تھیں کہ پی ٹی وی کی خاتون نیوز کاسٹر کو دوپٹہ اوڑھے بغیر جھوٹ بولنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انقلابات ہیں زمانے کے، ایک بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر موت کے بے رحم پنجے نہ ہوتے تو موصوف آج بھی صدرِ مملکت، راجہ ظفر الحق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات اور مجیب الرحمٰن اس وزارت کے سیکرٹری ہوتے۔ نیز اظہر لودھی، خالد حمید، ثریا شہاب اور مہ پارہ صفدر مستقل خبر نامہ پڑھتے ہوئے وہی گردان کر رہے ہوتے ’صدر مملکت جنرل محمد ضیا الحق نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کا تحفظ ہر حال میں یقینی بنائے گی۔ یہ بات انہوں نے آج اسلام آباد میں علما و مشائخ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ صدر مملکت نے کہا کہ یہ نظریاتی مملکت صحیح معنوں میں اسلام کا مضبوط قلعہ بن چکی ہے اور اس کی طرف دیکھنے والی ہر میلی آنکھ پھوڑ دی جائے گی۔‘

یہ جو آج استاد محترم عطا الحق قاسمی اپنے کالموں میں لکھتے ہیں کہ ایسی ہی ایک کانفرنس کے دوران دو عدد علمائے کرام ایوانِ صدر کے سوئمنگ پول میں گر گئے تھے … تو بہ توبہ! اس عظیم دور میں ایسی خرافات لکھنے کی ہر گز اجازت نہیں تھی۔ ملکی حالات سے با خبر رہنے کے شوقین ریڈیو پر بی بی سی لندن کی اردو خبریں اور سیربین سنا کرتے تھے۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ بیروت میں بم دھماکہ ہوا اور 18 لوگ مارے گئے۔ اسی دن کراچی میں بھی ایک بم دھماکے میں اتنے ہی لوگ ہلاک ہوئے۔ اب مردِ حق کے دور میں طریقہ واردات یہ تھا کہ رات پی ٹی وی کے خبر نامہ میں پہلی خبر بیروت بم دھماکے کی تھی، جس کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کی فوٹیج بھی دکھائی گئی۔ اس کے بعد صدر مملکت اور وزرا کی مصروفیات اور تقاریر کی خبروں کا لا متناہی سلسلہ شروع ہوا۔ آخر ی خبر اظہر لودھی نے یہ پڑھی ’ڈسٹرکٹ میجسٹریٹ کراچی نے ایک پریس نوٹ جاری کیا ہے کہ آج لیاری میں ایک کار کے اندر رکھا گیا بم پھٹ گیا، تاہم کسی جانی یا مالی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔ پولیس نے شر پسند عناصر کے خلاف مقدمہ درج کر کے ان کی تلاش شروع کر دی ہے۔ پریس نوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ امن و امان کی صورت‌ حال مکمل طور پر کنٹرول میں ہے اور کسی ناخوشگوار واقعہ کی اطلاع نہیں ملی۔‘

تم ہوتے تو کیسا ہوتا؟ ایسا ہوتا کہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کی خبر، خبر نامہ کے آخر میں خالد حمید کچھ یوں پڑھتے ’ڈسٹرکٹ میجسٹریٹ راولپنڈی نے ایک پریس نوٹ جاری کیا ہے کہ آج لیاقت باغ کے قریب کسی شر پسند نے پٹاخہ چھوڑا، جس سے گھبرا کر قریب سے گزرنے والی ایک گاڑی میں بیٹھی عورت کا سر گاڑی کی چھت سے جا ٹکرایا۔ اسے سنٹرل ہسپتال پہنچایا گیا مگر وہ سر کے گہرے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہو گئی۔ مرحومہ کا نام بے نظیر دختر ذوالفقار علی معلوم ہوا ہے، جو ضلع لاڑکانہ کے کسی گاؤں کی بتائی جاتی ہے۔ پریس نوٹ میں کہا گیا ہے کہ اس حادثے کو جواز بنا کر مٹھی بھر شرپسند عناصر نے مری روڈ پر جلوس نکالنے اور توڑ پھوڑ کرنے کی کوشش کی، تاہم پولیس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے بیس شر پسندوں کو گرفتار کر لیا۔ تفتیش سے معلوم ہوا ہے کہ گرفتار شدہ شر پسند پہلے بھی ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی بنا پر جیلیں اور کوڑوں کی سزائیں بھگت چکے ہیں۔ پریس نوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ امن و امان کی صورت حال مکمل طور پر قابو میں ہے اور کسی نا خوشگوار واقعے کی اطلاع نہیں ملی۔‘

تم ہوتے تو کیسا ہوتا… ایسا ہوتا کہ کسی حکومت مخالف دھرنے سے ملک کے عوام کو بے خبر رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی۔ پھر جب شہری خوب ذلیل اور دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہو چکی ہوتی تو کسی سہانی شام ایک سادہ مگر پر وقار پریس نوٹ جاری ہوتا، جسے خبر نامہ کے آخر میں ثریا شہاب پڑھ کر سناتیں: ’آج ڈسٹرکٹ میجسٹریٹ اسلام آباد نے ایک پریس نوٹ جاری کیا ہے، جس میں غیر ملکی میڈیا خصوصاً بی بی سی کی ان بے بنیاد خبروں کی سختی سے مذمت کی گئی ہے کہ اسلام آباد میں دھرنے سے پچھلے ایک ماہ سے زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ پریس نوٹ میں کہا گیا ہے کہ اگلے روز چند شر پسند عناصر نے اپنے مذموم مقاصد کی خاطر اسلام آباد کی طرف پیش قدمی کی۔ یہ لوگ دھرنا دینے کا ارادہ رکھتے تھے مگر پولیس کی بروقت کارروائی سے اس میں کامیاب نہ ہو سکے۔ پولیس نے مقدمہ درج کر کے 40 شر پسندوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ پریس نوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ امن و امان کی صورت حال مکمل طور پر کنٹرو ل میں ہے اور کسی ناخوشگوار واقعے کی اطلاع نہیں ملی۔‘

تم ہوتے تو کیسا ہوتا ؟ … ایسا ہوتا کہ کسی زلزلے یا سیلاب کے نتیجے میں لاکھوں لوگوں کے بے گھر ہونے اور بھاری جانی و مالی نقصان کے بعد کے کچھ ایسی خبریں نشر ہوتیں: ’حالیہ بارشوں سے آج جھنگ کے مضافات میں نچلے درجے کا سیلاب آیا‘ یا ’آج پنجاب اور آزاد کشمیر کے چند اضلاع میں ہلکے درجے کے زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے، تاہم حکومت کی طرف سے قبل از وقت کی جانے والی ٹھوس منصوبہ بندی کے نتیجے میں کسی جانی یا مالی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔‘

بس اب تو شہید بہاولپور کی یادیں ہی باقی رہ گئی ہیں … میں او میری تنہائی، اکثر یہ باتیں کرتے ہیں … تم ہوتے تو کیسا ہوتا … تم ہوتے تو ایسا ہوتا … تم اپوزیشن کی دھمکیوں پہ کتنا ہنستے … تم اس بات پہ جیلیں بھرتے … تم اس بات پہ کوڑے مارتے … تم اس بات پہ پھانسیاں دیتے … اللہ! زمین کھا گئی آسماں کیسے کیسے … وہ آسماں تھا مگر مستند شر پسندوں نے اس کی شہادت پر کہا: ’کسی نا خوشگوار واقعہ کی اطلاع نہیں ملی۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ