انقلاب بجلی کی طرح ہوتے ہیں۔ یہ غیر متوقع انداز میں بجلی کا جھٹکا بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس کا متاثرہ شخص شروع میں سوچتا ہے جیسے کسی بھنورے نے کاٹا ہو لیکن انہیں بعد میں اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے پورے گھر کو لرزا دیا ہے، جس میں وہ رہ رہا ہے۔
وہ کراہت کے ساتھ چِلا اٹھتا ہے اور وعدہ کرتا ہے کہ گھر وہاں سے منتقل کر دے گا یا پورے گھر کی وائرنگ بدل دے گا، لیکن جب اسے لگتا ہے کہ بجلی کو قابو کیا جا سکتا ہے، چاہے جتنی بھی طاقت لگانی پڑے۔ سب سے اہم بات یہ کہ جب اسے قابو کرنا ممکن ہی نہ ہو تو وہ بے فکر ہو جاتا ہے۔ یہ کسی شارٹ سرکٹ کے باعث ہوا ہے، وہ خود کو یہ کہہ کر تسلی دیتا ہے۔ کچھ ماہر اور تربیت یافتہ الیکٹریشن ہی بجلی کے اس قسم کے جھٹکے کو سہہ سکتے ہیں۔
عراق، لبنان اور الجیریا میں ایسا ہی ہو رہا ہے۔ بغداد، کربلا، بیروت اور الجزائر کے شہروں میں ایک بار پھر اور چھوٹے پیمانے پر قاہرہ میں بھی ایسا ہوتا نظر آرہا ہے۔ نوجوان اور پڑھے لکھے افراد نہ صرف کرپشن اور فرقہ واریت کا خاتمہ چاہتے ہیں بلکہ وہ مذہبی طاقت کی بنیاد پر حکومت کرنے والوں کی طاقت، بے پناہ دولت اور غرور کا خاتمہ بھی چاہتے ہیں۔
تاہم، وہ سب وہی غلطیاں دہرا رہے ہیں، جو لاکھوں مصریوں نے 2011 میں کی تھیں۔ ان کے پاس کوئی قیادت نہیں، نہ ہی کوئی جانے پہچانے قابلِ بھروسہ چہرے اور سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ وہ انہیں تلاش بھی نہیں کرنا چاہتے۔
حکومت کو گرانا، جھوٹ بولنے کے ماہر اور طاعون زدہ طاقت کے مراکز کو تباہ کرنا ان کا واحد مطالبہ ہے۔ لبنان کے لاکھوں مظاہرین ایک نیا آئین چاہتے ہیں۔ وہ تقسیم زدہ حکومتی نظام کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور غربت سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔
وہ بالکل ٹھیک ہیں لیکن پھر وہ رک جاتے ہیں۔ دھوکے بازوں کو ہمیشہ کے لیے جانا ہوگا۔ چاہے یہ تمام افراد اقربا پرور ہیں، ڈاکو ہیں یا مسلح طاقت رکھتے ہیں۔ ان سب کا جانا ہی لبنان کے مستقبل کے وارثوں کے لیے کافی ہوگا۔
یہ ایسا ہے جیسے بیروت، بغداد اور الجزائرز کے انقلاب اپنی انگلیاں سیاسی کشمکش سے آلودہ نہیں کرنا چاہتے اور وہ سیاسی گند سے دور رہنا چاہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں ان کے مطالبات بہت پاکیزہ ہیں اور مستقبل کی حکومت بنانے کے لیے وہ صرف اپنی ہمت پر انحصار کرنا چاہتے ہیں۔
یہ بے وقوفی ہے، قیادت کے بغیر یہ شکست کھا جائیں گے۔ عرب دنیا پر حکومت کرنے والے بادشاہوں اور اشرافیہ کے پنجے بہت تیز ہیں۔ وہ پھر جھوٹے وعدے کریں گے کہ وہ بدعنوانی ختم کر دیں گے، نئے ٹیکس واپس لے لیں گے یا کچھ وزرا سے استعفیٰ بھی لے لیں۔
وہ انقلابیوں کی تعریف کریں گے، انہیں ’عوام کی حقیقی آواز‘ اور ’محب وطن‘ کہا جائے گا لیکن اگر انقلابی بضد رہے تو انہیں بیرونی طاقتوں کے لیے کام کرنے والے غدار بھی کہا جا سکتا ہے۔ جانے والی حکومت تازہ انتخابات کی پیشکش کرے گی لیکن اس میں وہی پرانے چہرے سامنے آئیں گے اور الیکشن کے بعد وہ اسی موڑ پر واپس آجائیں گے۔
یہ نئے انقلاب ایک جیسے نہیں۔ الجیریا میں ایک نیا پڑھا لکھا لیکن بے روزگار طبقہ فوج کے زیر اثر جعلی جمہوریت سے تھک چکا ہے۔ انہوں نے عبدالعزیز بوتیفلیکا سے جان چھڑائی تھی، صرف ایک اور فوجی حکومت کے تحت دسمبر میں انتخابات کا وعدہ سننے کے لیے۔
یہ وہی تاریخ ہوگی جب ڈاؤننگ سٹریٹ میں ایک اشرافیہ سے تعلق رکھنے والا رہنما برطانیہ کو تقسیم کرنا چاہتا ہے۔ الجیرین عوام کے لیے یہ پیشکش ہولناک ہے، کیونکہ نیا منتخب صدر بدعنوان جرنیلوں کے زیر اثر رہے گا جن کے بینک اکاؤنٹس فرانس اور سوئٹزرلینڈ میں ہیں۔
الجیریا فوج کی ملکیت بن چکا ہے۔ یہ ویسا ہی ہے جیسا میں مشرق وسطیٰ میں کہتا ہوں ’فوجی معیشت‘، ایک ایسی معیشت جو بیرکوں میں ترتیب پاتی ہے۔ ایک فوجی معاشی کمپلیکس جس کا مطلب ہے کہ رہنماؤں کے لیے ذاتی دولت اور محب الوطنی ناقابلِ تقسیم اثاثے ہیں۔
غریب ان کے مخالف ہیں، وہ اپنے منافع بخش ملک کے تیل سے کھانا چاہتے ہیں لیکن جرنیل اس کو ایسے نہیں دیکھتے۔ جب لوگ تبدیلی کا مطالبہ کرتے ہیں تو وہ دراصل فوج کی دولت حاصل کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں۔
یہ ایک اور فوجی معیشت یعنی مصر کی السیسی کی فوج جیسی ہے، جو زمین، شاپنگ مالز اور بینکوں کی مالک ہے۔ امریکہ مصر کا 50 فیصد سے زیادہ کا دفاع بجٹ ادا کرتا ہے لیکن مصر کے جنگی جہاز اور ٹینک مصر کے روایتی دشمنوں کے خلاف استعمال نہیں ہوتے۔ ان کا مقصد اسرائیل کا تحفظ ہے، مذہبی شدت پسندوں کو دبانا ہے اور امریکہ کے اتحادیوں کے لیے اور اس کی سرمایہ کاری کے لیے خطے میں استحکام لانا ہے۔ مصر کے 2011 کے لاکھوں مظاہرین مورسی کے کئی ہیبت ناک مہینوں کے بعد دوبارہ فوج کے ہاتھوں استعمال ہونے پر تیار تھے۔ ان کے پاس کوئی رہنما نہیں تھا جو انہیں اس بات سے خبردار کرتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مصر کے ٹی وی پر صحافی اتنے بہادر ہیں، جیسے اگلی صفوں میں جنگ لڑ رہے ہوں۔ وہ سیسی کے اقتدار پر قبضے والے دن فوجی وردیوں میں نظر آئے۔ حزب اختلاف کو 'دہشت گرد' قرار دیا گیا۔ اب عراقی اور لبنانی سیاست دان بھی اپنے نوجوان مخالفین کو یہی کچھ کہہ رہے ہیں اور وہ نئے انقلابی، جنہوں نے نئے مصر کی بنیاد رکھی، بہت جلد ہی تورا جیل کے اندھیرے کمروں میں پھینک دیے گئے۔
جب ہزاروں بہادر مصریوں نے اس ماہ قاہرہ میں مظاہروں کو دہرانے کی کوشش کی تو انہیں گلیوں سے اٹھا لیا گیا۔
اور عراق میں نئے رہنما کون ہیں؟ کوئی ایسا نہیں جسے ہم جانتے ہوں۔ غریب اور بے سہارا عوام جو بدعنوان وزیروں سے اپنا ملک واپس لینا چاہتے ہیں۔ جنہوں نے ملک کی دولت کو لوٹا اور اب سکیورٹی رِسک کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔ ایک ایسا ہجوم جو انتشار پھیلا رہا ہے اور جسے بیرونی طاقتوں کا آلہ کار کہا جا رہا ہے، جس کے مطالبات کا جواب صرف اور صرف گولیاں ہیں۔
عراق نے تازہ انقلاب میں سب سے زیادہ شہدا دیے ہیں۔ ابھی تک دو سو اور تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ تعداد عرب ملکوں میں سب سے زیادہ ہے اور اب مسلح گروہ انہیں دبانے آچکے ہیں۔ کربلا میں مارے جانے والے 18 شیعہ افراد مسلح شیعہ ملیشیا کا شکار بنے۔ یہ ایرانی حمایت یافتہ ہیں جس کے بارے میں مغرب میں بہت بات کی جاتی ہے لیکن یہ واضح نہیں کہ وہ جو امریکہ کے خلاف لڑتے ہوئے عراق کے لیے جان دینا چاہتے تھے آج بھی عراقی انقلاب کو دبانے کے اپنے ہم مذہبوں کو قتل کرنے پر تیار ہیں۔
لبنان میں خون کم بہا لیکن حالات زیادہ خراب ہو سکتے ہیں۔ جب بیروت میں ہزاروں مظاہرین پر حسن نصراللہ کی حزب اللہ کے گروہ حملے کر رہے ہیں، یہ ان بہادر افراد کی جانب سے لبنان میں کیا جانے والا پہلا شرمناک اقدام ہے۔ یہ وہ جنگجو ہیں جنہوں نے 2000 میں اسرائیل کو واپس باہر دھکیلا تھا۔ جنوب کے ’ہیرو‘ اپنے ساتھی لبنانیوں پر حملہ کرنے کے لیے تیار تھے تاکہ وہ اپنی سیاسی طاقت اور بیروت کے ادھیڑ عمر بدعنوان افراد کی دولت کو بچا سکیں۔ نصراللہ کو چاہیے تھا کہ وہ اُن نوجوان لبنانی اور فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہوتے اور لوگوں کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملاتے۔ یہ ایک تاریخی اور بہترین سیاسی قدم ہوتا۔
اس کے بجائے نصراللہ نے خانہ جنگی کی تنبیہ کر ڈالی۔ یہ وہی بیانیہ ہے جو سادات اور مبارک جیسے طالع آزما اپنے محروم لوگوں کو ڈرانے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ طاقت اور اختیار، ان کے لیے اپنی طاقت اور اختیار سب سے اہم تھا۔ ان سے بھی زیادہ اہم، جن کے بھائی اسرائیل کے قبضے کے خلاف لڑتے ہوئے مارے گئے۔
تو اب یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا حزب اللہ کا وجود سیاسی مقاصد کے لیے ہے یا آزادی کی حفاظت کے لیے؟
میرے خیال میں ایسا نہیں ہے۔ حزب لبنان کی ایسی ملیشیا ہے جو کچھ عزت رکھتی ہے۔ لیکن جب تک نصراللہ اپنے حامیوں کو لوگوں پر حملہ کرنے کے بجائے بغیر کسی فرقہ وارانہ تفریق کے ان کے ساتھ کھڑے ہونے کا نہیں کہتے، حزب اللہ کے لیے پچھلے کچھ دن کی شرمندگی مٹانا بہت مشکل ہوگا۔
انقلابی، خاص طور پر مسلح انقلابی تمام لوگوں کا دفاع کرتے ہیں۔ وہ بدعنوان افراد کی پشت پر نہیں کھڑے ہوتے یا ان کی باتوں پر دھیان نہیں دیتے۔ ایک درمیانے طبقے کی حکومت کی مسلح فوج جن مین سے کئی شاید کسی بیرون ملک کے وفادار ہوں۔ حزب اللہ اور اس کی فطری اتحادی امل پارلیمنٹ سپیکر نبی بیری کے حامی ہیں اور جنوبی لبنان کے شیعوں کے لیے کام کرتے ہیں، جن میں سے کئی ان ہتھکنڈوں کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اس شاندار مزاحمت کا کیا ہوا جو اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کرتی ہے؟ وہ شام کے لیے تھی یا ایران کے لیے؟
میں جانتا ہوں کہ بیروت کے مظاہرین اب اس بارے میں بحث کر رہے ہیں کہ ان کا رہنما کون ہوگا۔ یہ کافی پرانا مسئلہ ہے۔ جو ملک سے باہر ہیں وہ اس جدوجہد کا حصہ نہیں ہیں۔ وہ افراد جو یورپ میں ہیں خاص طور پر مشرقی یورپ میں وہ لبنان کے سیاسی انقلاب کی ریڑھ کی ہڈی رہے ہیں لیکن وہ بھی حکومت کی فرقہ واریت سے متاثر ہوئے ہیں۔
ایک الگ دنیا میں، ایک الگ دور میں، وہ ایک فرد جو اس لبنان کا نیا طلسماتی رہنما ہو سکتا تھا، وہ رہنما ولید جمبلات ہیں۔ وہ بہادر ہیں اور کرشماتی بھی اور ایک دانشور بھی۔ اپنی طبیعت سے وہ اشتراکی ہیں۔ چاہے وہ اپنا زیادہ وقت مختارہ کے محل میں پہاڑوں پر گزار چکے ہیں۔ میں انہیں دنیا کا سب سے بڑا لاوجودیت پسند کہہ چکا ہوں۔
لیکن وہ صرف چھ فیصد لبنانیوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ دیکھ لیں کس طرح فرقہ واریت آپ کے عزم کی راہ میں فیصد کی وجہ سے رکاوٹ بنتی ہے اور بطور انقلابی رہنما ان پر یہ الزام عائد کیا جانا ناگزیر ہے کہ وہ لبنان کی بجائے اپنے فرقے کے لیے طاقت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
یہ مذہبی تقسیم کا طاعون ہے۔ آپ فرقہ واریت کی بیماری کا ’علاج‘ نہیں کر سکتے۔ یہ لبنان کا المیہ ہے۔ لیکن اگر لبنان کی جدوجہد کو باقی رہنا ہے تو انہیں قیادت کی ضرورت ہے، ورنہ وہ تقسیم ہو جائیں گے اور ناکام ہو جائیں گے۔
حزب اللہ اور امل یہی کر رہے ہیں۔ اگر وہ مظاہرین پر حملہ کر سکتے ہیں، بچوں اور خواتین کو الگ کر سکتے ہیں۔ مظاہرین کو بدنام ہجوم یا گروہ کہہ سکتے ہیں اور شیعوں کو خوفزدہ کرکے وسطی بیروت میں موجود اپنے بہن بھائیوں سے دور کر سکتے ہیں تو حکام کو فوج کی مخالفت کے باوجود مظاہرین کو تشدد سے دبانا ہوگا اور یہ لبنان کی تاریخ میں تاریخی لعنت کو ختم کرنے کے ایک اور روشن موقع کا اختتام ہوگا۔
شاید لبنانی مظاہرین کو اپنے فونز کا استعمال کرتے ہوئے ہالی وڈ سے سیکھنا چاہیے۔ جیسا کہ فلم ڈاکٹر زیواگو میں دکھایا گیا کہ ماسکو کے ایک پرتعیش نائٹ کلب میں خاموشی کے دوران ڈھول کی تھاپ پر بولشویک مظاہرین برف سے ڈھکی گلیوں میں گانے گا رہے ہیں۔ مہمانوں میں وکٹر کوماروسکی بھی موجود ہے۔ وہ کوئی انقلابی یا دانشور نہیں ہے۔ یہ کردار روڈ سٹیگر نے ادا کیا تھا۔
کوماروسکی شاید اس فلم کا سب سے قابل اعتبار اور دلچسپ کردار ہے۔ خطرناک، بدعنوان انسان جو زیادہ محنت کیے بغیر ایک بورژوائی کاروباری شخصیت سے بولشویک وزیر بن جاتا ہے اور زار کی فوج کو تباہ کرنا شروع کر دیتا ہے جو نسلوں سے روس پر حکومت کرتے آرہے ہیں۔ لیکن نائٹ کلب میں وہ جانتا ہے کہ بولشویک قیادت کے بغیر اور سادہ لوح ہیں۔ کوماروسکی کھڑی کی طرف جھکتا ہے اور کہتا ہے ’کوئی شک نہیں کہ یہ انقلاب کے بعد سر میں گائیں گے۔‘
نائٹ کلب میں موجود افراد قہقہہ لگاتے ہیں اور پھر تمام مظاہرین زار کی فوج کی تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے جاتے ہیں۔
© The Independent