ہر کسی کی زندگی میں ایسے لمحات ہوتے ہیں جنہیں ہم کبھی نہیں بھلا پاتے۔ ہماری زندگی میں آنے والے وقت اور مقام کے اعتبار سے اُن لمحات کی نوعیت مختلف ہو سکتی ہے۔ ہم ایرانی شہریوں کے لیے ایسے لمحات کا زیادہ تعلق ذاتی زندگی کی بجائے ملک میں رونما ہونے والے سیاس و سماجی واقعات سے ہے۔ اچھا ہے یا برا، ان واقعات کی وجہ ہمارے ملک کا جغرافیائی محل وقوع، ہماری نسل اور ہمارے ہمسایہ ممالک ہیں۔ یہاں موسموں کا تنوع، زرخیز قدرتی وسائل اور سب کچھ موجود ہے لیکن یہاں کے عوام کو سکون اور بہبود کہیں دور دور تک نظر نہیں آتے۔
سال کے 12 مہینے اور ہفتے کے سات دن آفات آتی ہیں اور لوگوں کی زندگی پر غلبہ پا لیتی ہیں۔ گذشتہ چند ہفتے سے لوگوں کی نئی پریشانی ملک کے جنوب میں رونما ہونے والے واقعات ہیں جن پر انہوں نے پریشان نظریں جما رکھی ہیں۔ یہ واقعات خلیج فارس اور آبنائے ہرمز کے پانیوں میں وقوع پذیر ہوئے۔
ہم ایک دن اچانک نیند سے بیدارہونے کے بعد دیکھتے ہیں کہ دو بحری جہازوں پر حملہ کیا گیا ہے۔ کسی اور دن ہم سنتے ہیں کہ ایرانی بحری جہاز جس پر 20 لاکھ بیرل تیل تھا اس پر قبضہ کر لیا گیا ہے اور اب اس جمعے کو برطانیہ کے خلاف جوابی کارروائی کے طور پر پاسدارانِ انقلاب نے آبنائے ہرمز میں ایک برطانوی بحری جہاز کو قبضے میں لے لیا ہے۔
ان واقعات سے جنگ، عدم تحفظ اور دباؤ کی بو آ رہی ہے اور یہ قدرتی امر ہے کہ بڑی تعداد میں لوگ دل کے امراض، نیند کی کمی اور ذہنی دباؤ کا شکار ہو رہے ہیں۔
آج صبح، خبر رساں ادارے فارس نے نے ایک مختصرویڈیو نشر کی جس میں دکھایا گیا ہے کہ چہرے پر نقاب لیے افراد کا ایک گروپ ایک برطانوی بحری جہاز میں داخل ہو رہا ہے۔ اس ویڈیو کو دیکھ کر ہمیں دباؤ اور پریشانی کے سوا کچھ نہیں ملا۔
خلیج فارس کے پانیوں سے ہزاروں کلومیٹر دور میں نے یہ تصاویر ایرانی شہریوں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھیں۔ ہم نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایران کے خلاف برطانیہ کی اپیل سنی۔
ہمیں امید ہے کہ کوئی ملک ہنگامی حالت اورجنگ کا شکار نہیں ہوگا جن میں ہمارا پیارا ایران بھی شامل ہے کیونکہ جنگ کا مطلب تباہی ہے۔
اگر ہمارے پیارے ملک ایران پر حملہ کیا گیا ہوتا یا کسی غیرملکی طاقت یا دشمن نے اس کی سرحدوں کی خلاف ورزی کی ہوتی تو ہمارے ملک کی خصوصی فورسز کی ملک کی علاقائی سلامتی کے دفاع اورعوام کی جان ومال کی حفاظت کرتے ہوئے تصاویر دیکھ کر ہمارے دل خوشی اور احترام کے جذبے سے بھر جاتے۔ لیکن جب دنیا ہمارے ساتھ جنگ نہیں کرنا چاہتی تو ہم ایک بار پھر جنگ اور عدم تحفظ کے بارے میں کیوں سوچ رہے ہیں؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
1970 کی دہائی میں پیدا ہونے والی ایک خاتون ہونے کے ناطے میرے ذہن میں جنگ اور ہنگامی حالت کے برسوں کی تلخ یادیں موجود ہیں۔ اس وقت میں ایک بچی اور عام شہری تھی۔ بہت سے دوسرے ایرانیوں کی طرح مجھے وہ دن یاد ہیں۔ انقلاب کے بعد ہنگامہ خیزی اورعدم تحفظ کے دن کیا تھے؟ جنگ کے دن، بمباری سے ہوشیار رہنے کے دن، جب ہمیں کمرہ جماعت چھوڑ کر پناہ گاہوں کی جانب بھاگنا پڑتا تھا۔ دھماکوں کی آوازیں سنتے رہنے والے دن اور جب موبائل فون اور انٹرنیٹ نہیں تھے تب خاندان کے لوگوں کے بارے میں مسلسل پوچھتے رہنے کے دن، وہ ایام کبھی بھلائے نہیں جا سکتے۔
جنگ اتنی طویل تھی کہ جب میں مڈل سکول میں پڑھتی تھی، ہمارے سکول کے میدان کے وسط میں بمباری سے بچنے کے لیے پناہ گاہیں بنائی گئیں اور اب جب میں اس بارے میں سوچتی ہوں تومجھے یاد آتا ہے کہ آٹھ سالہ جنگ کے دوران سکول جانا اورپڑھنا کتنا مشکل تھا۔
انقلاب کے بعد پریشانی کے دن ختم ہو گئے۔ آٹھ سالہ جنگ بھی اختتام کو پہنچی لیکن اب تک حالات پرسکون کیوں نہیں ہوئے؟ اتنی پریشانی کا عالم کیوں ہے؟
جب میں نے نقاب پوش افراد کو دیکھا جو برطانوی بحری جہاز میں داخل ہو رہے تھے تو میں نے اس خوف کے بارے میں سوچا جو غیرملکی کارکنوں نے محسوس کیا ہو گا۔
بحری جہاز کا عملہ عام طور پر بے گناہ ہوتا ہے جو گزر بسر کے لیے خطرات سے بھرا سمندری سفر کرتا ہے۔ جمعے کو برطانوی بحری جہاز کا عملہ ایران اور برطانیہ کے درمیان تنازع سے متاثر ہونے ہی والا تھا۔
میں دوسری جانب بھی سوچتی ہوں۔ پاسداران انقلاب یا فوج کی وردی میں ملبوس ایرانی ہم وطنوں کے بارے میں، جنہیں ایرانی بحری جہاز پر قبضے کا حکم دیا گیا تھا اور وہ ایسا کرسکتے تھے۔
میں یہ بھی سوچتی ہوں کہ برطانوی تیل بردار بحری جہاز کی مدد اور ایرانی پاسدران انقلاب کی تیز رفتار کشتیوں کو روکنے کے لیے اگر برطانیہ کا جنگی بحری جہاز آ جاتا تو کیا ہوتا؟
ایرانی جوانوں اور آئل ٹینکر کے چند بدقسمت غیر ملکی کارکنوں کی موت کا فائدہ کس کو ہوتا؟
ایران میں انقلاب کی چار دہائیوں بعد بھی ہمیں معلوم نہیں کہ ہم کب اچھی اور تناؤ سے پاک نیند سو سکیں گے۔ تہران، اہواز، لندن، نیویارک یا سٹاک ہوم، دنیا کے کسی بھی گوشے میں ایرانی شہری ہونے کا مطلب ہے کہ ہمیں تقریباً اسی تناؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے ایران میں آٹھ کروڑ شہری دوچار ہیں۔
خوف اور تناؤ ایرانی شہریوں کی روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکا ہے جس کی وجہ سے ہمارے ملک میں ترقی، سکون اور استحکام کا عمل رک گیا ہے۔ کیا ایسا بھی کوئی دن آئے گا جب ایرانی لوگ پریشانی، خوف اور تناؤ کے بغیر سو سکیں گے؟ ایسا دن جب نقاب پوشوں کا ڈراؤنا خواب دکھائی نہیں دے گا۔
© The Independent