پاکستان فوج نے کہا ہے کہ الیکشن میں فوج کا کردارنہیں، وہ صرف سکیورٹی فراہم کرتی ہے اور اگراسے الیکشن میں نہیں بلایاجائےگاتونہیں جائےگی۔
پاکستان فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے بدھ کو ہم نیوز سے گفتگو میں کہا فوج ایک غیرجانبدار ادارہ ہے اور اس کی خواہش نہیں کہ الیکشن میں کوئی کردارادا کرے۔ ’اسلام آباد میں جاری دھرنا ایک سیاسی سرگرمی ہےاور فوج اس سے لاتعلق ہے۔‘
’سیاسی جماعتیں چیف الیکشن کمشنر کا تقرر خود مل کے کرتی ہیں۔ یہ سیاست دانوں کا کام ہے۔‘
ان کا کہنا تھا: ’سابق دورکے [پی ٹی آئی ] دھرنےمیں فوج نےجمہوری حکومت کا ساتھ دیا تھا۔‘
ڈی جی آئی ایس پی آر نے مزید کہا کہ ’مولانا فضل الرحمان سینیئر سیاست دان ہیں اور ملک سے محبت کرتے ہیں۔
گذشتہ روز وزیر داخلہ بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ نے سما ٹی وی چینل سے گفتگو میں جمعیت علمائے اسلام ۔ ف کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کی استعفے اور از سر نو انتخابات سے ’کہیں زیادہ خطرناک‘ مطالبہ فوج کے بغیر الیکشن کو قرار دیا تھا۔
ان کا کہنا تھا فو ج کے بغیر الیکشن کا مطالبہ اس لیے سنگین ہے کیونکہ ’آج تک ہم یہ کہتے آئے ہیں کہ فوج کے بغیر الیکشن آزادانہ اور منصفانہ نہیں ہو سکتے لیکن اب ہم پہلی مرتبہ یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ الیکشن فوج کے بغیر ہونے چاہیں۔‘
’فوج ایک ادارہ ہے جس پر اب تک سب کو اعتماد تھا، لیکن جب آپ کہتے ہیں کہ فوج الیکشن سے دور رہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کو اس پر اعتماد نہیں رہا جو بڑی بدقسمتی ہے۔‘
قبل ازیں جمعیت علمائے اسلام ۔ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے آزادی مارچ سے خطاب میں کسی ادارے کا نام لیے بغیر کہا تھا: ’ہم اداروں کے ساتھ تصادم نہیں چاہتے، اداروں کو طاقتور دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اداروں کو غیر جانب دار بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔‘
ان کے اس بیان پر میجر جنرل آصف غفور نے ردعمل میں کہا تھا کہ ’مولانا فضل الرحمٰن سینیئرسیاست دان ہیں، وہ بتائیں کس ادارے کی بات کر رہے ہیں؟‘
انہوں نے کہا فوج نے الیکشن میں آئینی اور قانونی ذمہ داری پوری کی، اپوزیشن اپنے تحفظات متعلقہ اداروں میں لےکرجائے۔ ’ہماری سپورٹ جمہوری طورپرمنتخب حکومت کےساتھ ہوتی ہے، یوں سڑکوں پر آ کر الزام تراشی نہیں کرنی چاہیے۔‘
اُدھر، وزیر دفاع اور حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ پرویز خٹک نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن 2018 کےعام انتخابات میں کھُلی دھاندلی کا الزام تو لگاتے ہیں مگر اس حوالے سے کوئی ٹھوس ثوبت نہیں دیتے۔
انہوں نے ڈان نیوز کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا اگر جے یو آئی ۔ ف کے سربراہ دھاندلی کے ٹھوس ثبوت فراہم کریں گے تو حکومت لا محالہ ختم ہو جائے گی۔ ’ہم جمہوری لوگ ہیں، جو زبردستی حکومت میں نہیں بیٹھتے۔‘
’ملک بچانا ہے تو حکمرانوں کو مزید ایک دن بھی نہیں دے سکتے‘
مولانا فضل الرحمٰن نے سات دنوں سے جاری دھرنے سے خطاب میں آج ایک مرتبہ پھر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا ’تحریک انصاف کی حکومت ایک سال میں تین بجٹ پیش کر چکی ہے اور اگر اسے آئندہ بجٹ پیش کرنے دیا گیا تو ملک بیٹھ جائے گا۔‘
منگل کے رات سے اسلام آباد میں شروع ہونے والی بارش بدھ کو دن بھر وقفےوقفے سے جاری رہی جس سے موسم میں ٹھنڈ بڑھ گئی، تاہم دھرنے کے مقام پر آج بھی قابل ذکر ہجوم مولانا فضل الرحمٰن کا خطاب سننے کے لیے موجود تھا۔
ایک طرف جہاں بارش سے دن بھر دھرنے کے معمولات متاثر ہوئے، وہیں مولانا فضل الرحمٰن وزیراعظم عمران خان کے استعفے اوراسمبلیوں کی تحلیل کے مطالبوں پر قائم ہیں جب کہ حکومت کی جانب سے مذاکرات کی کوششیں جاری ہیں اور اس میں ’مثبت پیش رفت‘ کا تاثر دیا جارہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دھرنے کے ساتویں روز حکومت اور اپوزیشن میں مفاہمت کے لیے بطور خاص لاہور سے اسلام آباد آنے والے مسلم لیگ ق کے رہنما اور سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی نے کہا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات میں ’مثبت پیش رفت‘ ہوئی ہے۔
آج مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں چوہدری پرویز الہٰی نے کہا بہت ساری چیزیں ساتھ ساتھ چل رہی ہیں لیکن کسی بریک تھرو کے لیے صبر اور سخت محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے آج سخت موسم جھیلنے پر اپنے کارکنوں اور ہمدردوں کو سراہتے ہوئے کہا ان کے لیے سب سے تکلیف دہ مرحلہ وہ تھا جب بارش برس رہی تھی اور دھرنے کے شرکا کھلے آسمان تلے استقامت سے موجود رہے۔
انہوں نے خطاب کے دوران 12 ربیع اول کے روز آزادی مارچ کو سیرت طیبہ کانفرنس میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان مالیاتی بحران سے گزر رہا ہے اور خدشہ ہے مستقبل میں بحران مزید بڑھ جائے گا۔ ’اگر ان نااہلوں کو اگلا بجٹ پیش کرنے دیا گیا تو خدا نخواستہ ملک بیٹھ نہ جائے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ایک سال میں تین بجٹ دینے کے باوجود محصولات کا ہدف حاصل نہ کیا جا سکا، اس لیے ہم یہاں آج ملک بچانے کے لیے آئے ہیں، اگر ملک بچانا ہے تو حکمرانوں کو مزید ایک دن بھی نہیں دے سکتے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے خطاب کے دوران کہا آج دھرنے میں وکلا برداری بھی موجود ہے جسے وہ خوش آمدید کہتے ہیں۔ ’وکلا برداری کی موجودگی نے ثابت کر دیا کہ دھرنا آئینی اور قانونی ہے۔‘
انہوں نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کا بھی ذکر کیا اور کہا ریفرنس اس لیے دائر ہوا کیونکہ ان کے فیصلے حکمرانوں کے مفاد کے خلاف تھے۔’یہاں عدل و انصاف نہیں، یہاں اپوزیشن کا احتساب ہوتا ہے۔‘
اس موقعے پر انہوں نے جسٹس عیسیٰ کے خلاف ریفرنس واپس لینے کا بھی مطالبہ کیا۔ ’یہ ملک ہمارا ہے، اس میں عدل و انصاف کی فراہمی نہ ہونا ہمارا اور قوم کا مسئلہ ہے، یک طرفہ احتساب اور انصاف نہیں چلے گا۔
’مولانا فضل الرحمٰن کا خود کو ختم نبوت کا نگران قرار دینا غیر ضروری‘
دوسری جانب، وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نور الحق قادری پُرعزم ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن’ مفاہمت کا راستہ اپنائیں گے۔‘
بدھ کو ایک پریس کانفرنس کے دوران نور الحق قادری نے کہا: ’مولانا فضل الرحمٰن کا ٹریک ریکارڈ بتاتا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے راستے کھلے رکھتے ہیں اور کبھی بند گلی میں نہیں جاتے۔‘
’وہ مفاہمت کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں، لہذا ڈیڈ لاک توڑنے کے لیے کوئی راستہ ضرور نکلے گا۔‘
انہوں نے مزید کہا وزیراعظم عمران خان کے استعفے کا مطالبہ جائز نہیں اور اسے پورا نہیں کیا جاسکتا۔
وزیر مذہبی امور نے بتایا کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کے دوران دیگر مطالبات کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کو مزید مضبوط بنانے کا معاملہ بھی زیرِ بحث آیا اور متحدہ اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کو بتایا گیا کہ جب الیکشن کمیشن خودمختار اور طاقت ور ہو جائے گا تو وہ اپنے طور پر فوج بلانے سمیت دیگر معاملات کا فیصلہ کرسکے گا۔
ان کا کہنا تھا ختم نبوت، ناموس رسالت اور اسرائیل کو تسلیم کرنے پر لوگوں کو جمع کیا جارہا ہے، اس مجمعے میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہیں اسی معاملے پر بلایا گیا ہے، حالانکہ سیاست یا احتجاج کرنے کے لیے اور بھی بہت سی معاملات ہوتے ہیں۔
’آئین میں اسلامی اقدار کو برقرار رکھنے کی شقیں پہلے ہی شامل کی جاچکی ہیں اور ہم ان پر عملدرآمد ہوتے ہوئے دیکھیں گے۔ ہم نے اپوزیشن کمیٹی سے پوچھا ہے کہ وہ مزید اور کیا دیکھنا چاہتے ہیں؟‘
وزیر مذہبی امور نے مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے خود کو ’ختم نبوت اور ناموس رسالت کا محافظ‘ قرار دینے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خود کو ختم نبوت کا نگران قرار دینا غیر ضروری ہے۔