بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں ایک ماں اپنے اس بچے کے بارے میں کوئی خبر نہیں جو وقت سے پہلے پیدا ہو گیا تھا اور اب ہسپتال میں ہے۔ ایک دلہن اس طرح سے شادی کے بندھن میں نہ بندھ سکی جس کا اس نے خواب دیکھا تھا۔ ایک خاتون فوٹوجرنلسٹ کے لیے سکیورٹی فورسز کی جانب سے ہراسانی کا خطرہ دگنا ہو گیا۔ ایک خطرہ ان کے پیشے کا اور دوسرا ایک خاتون ہونے کی وجہ سے۔
جب سے وزیراعظم نریندرمودی کی حکومت نے بھارت کے زیرانتظام کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کر کے وادی میں بہت بڑی تعداد میں سکیورٹی فورسز تعینات کر کے کرفیو نافذ کیا ہے عام کشمیریوں کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق دوسرے علاقوں سے تعلق رکھنے والے بھارتی فوجی کشمیر کی سڑکوں پر جگہ جگہ کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ ہزاروں کشمیریوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ کرفیو نافذ ہے، حکومت نے کشمیر کے بیرونی دنیا سے زیادہ تر مواصلاتی رابطے منقطع کر دیے ہیں۔ انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس بند ہیں۔ یہاں تک کہ پبلک ٹرانسپورٹ بھی نہیں چل رہی۔ حکام نے کچھ پابندیوں میں نرمی کی ہے۔ بھارت کہتا ہے کہ اسے سڑکوں پر پرتشدد مظاہرے روکنے کی ضرورت ہے جو اس علاقے میں معمول کا حصہ ہیں۔
تاریخی طور پر علاقے میں زیادہ تر مظاہرین یا جنگجو مرد ہوتے ہیں اور اکثر سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں پہلے انہیں ہی گرفتار کیا جاتا یا تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ کشمیری خواتین کرفیو کی وجہ سے مسائل کا شکار ہیں لیکن ان کی مشکلات زیادہ دکھائی نہیں دیتیں۔
زاہدہ جہانگیر نامی خاتون کے ہاں وقت سے پہلے اور کمزور بیٹا پیدا ہوا۔ پیدائش کے بعد بچے کو کلینک سے قصبے کے بچوں کے ہسپتال میں انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں منتقل کر دیا گیا۔ کرفیو کی وجہ سے ان کے لیے بچے کو دیکھنے ہسپتال جانا یا عملے سے رابطہ کرنا تقریباً ناممکن ہے۔
زاہدہ کو بیٹے کی پیدائش کے بعد پہلے 20 روز کے لیے اس سے الگ رہنا پڑا اور اب اگرچہ وہ صحت مند ہے لیکن ایک ماں کو جس تجربے سے گزرنا پڑا اس کا درد صرف ایک ماں ہی محسوس کر سکتی ہے۔ ان حالات کا انہیں ساری عمر افسوس رہے گا۔
کلثومہ رمیز کی شادی کرفیو کے دنوں میں طے ہوئی اس لیے وہ شادی کا وہ جوڑا خریدنے بازار نہیں جا سکتی تھیں جس کا انہوں نے خواب دیکھا تھا۔ انہوں نے شادی کا جوڑا ادھار مانگ کر پہنا۔ شادی کی چھوٹی سی تقریب ہوئی جس میں چند رشتہ داروں اور ہمسایوں نے شرکت کی۔ تقریب کے بعد انہیں پیدل چل کر نئے گھر جانا پڑا کیونکہ سڑکیں بند تھیں۔
فوٹوجرنلسٹ مسرت زہرا کرفیو کے بعد پہلے جمعے کو ہونے والے مظاہرے کی کوریج کر رہی تھیں۔ اس دوران ایک افسر نے انہیں لات مارنے کی دھمکی دی۔ وہ سمجھتی ہیں کہ کشمیری خواتین کسی مرد کے بغیر گھر سے باہر نہیں نکل سکتیں کیونکہ انہیں فوجیوں کی جانب سے ہراسانی کا خطرہ ہے۔ اس کے باجود ان کے قدم نہیں رکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مسرت نے کہا: ’آپ خاموش نہیں رہ سکتے۔ اگر آپ آگے بڑھ کر بات کرتے ہیں کوئی نہ کوئی تو آپ کی آواز سنے گا۔ کام کے لیے گھر سے باہر نکلنا میرے احتجاج کا انداز ہے۔‘
عتیقہ بیگم اکیلی رہتی ہیں۔ گھر کے واحد کفیل ان کے 22 سالہ بیٹے فاضل اسلم میر کو گھر جاتے ہوئے حراست میں لے لیا گیا تھا۔ لاک ڈاؤن کے پہلے روز فاضل والدہ کے لیے ادویات خریدنے گیا اور پھر گھر واپس ہی نہیں آیا۔
عتیقہ کہتی ہیں: ’میرے بیٹے کو کسی بھارتی شہر کی جیل میں منتقل کر دیا گیا ہے اور میرے پاس اسے دیکھنے کے لیے سفر کے وسائل نہیں ہیں۔‘
بھارت کے زیرانتظام کشمیر کے بڑے شہر میں واقع ہسپتال کی ڈاکٹر صباحت رسول کہتی ہیں کہ لاک ڈاؤن نے لوگوں کی زندگی کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا ہے۔ ایک حاملہ خاتون کی کہانی سناتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ خاتون نے ہسپتال میں داخل ہونے سے انکار کر دیا گیا کیونکہ ان کے پاس ایسا کوئی طریقہ نہیں تھا کہ وہ اپنے گھر والوں کو یہ بتا سکتیں کہ وہ گھر نہیں آ سکیں گی۔ ان کو ڈر تھا کہ اگر وہ ہسپتال یں داخل ہو جائیں گی تو گھر والے پریشان ہوں جائیں گے کہ کہیں انہیں اغوا تو نہیں کر لیا گیا۔ انہیں اگلے روز بے ہوشی کی حالت میں ہسپتال لایا گیا۔
ڈاکٹر صباحت نے بتایا: ’حاملہ خاتون کی زندگی بچ گئی لیکن ان کا بچہ دنیا میں آنے سے پہلے ہی چل بسا۔‘