(سابق صدر پرویز مشرف کی خیالی ڈائری)
ملک کی صدارت سے مستعفی ہونے کے بعد میں نے لندن کے ایک فنکشن میں طبلہ بجایا توحاضرین عش عش کراٹھے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ میں نےاتنا شاندارطبلہ بجانا کہاں سے سیکھا؟ مجھ سے پہلے لارڈ نذیر بولے، ’جو بغیر کسی مینڈیٹ کے آٹھ برس تک ناقوسِ حکمرانی بجا سکتا ہے، اس کے لیے طبلہ بجانا کون سا مشکل کام ہے؟‘
اس پر میری بیگم صاحبہ نے لقمہ دیا، ’یہ آٹھ سال تک طبلچیوں میں گھرے رہے ہیں، سو ان سے بہتر طبلہ کون بجا سکتا ہے؟‘ بیگم صاحبہ عہدِ صدارت کے میرے رفقا کو میرا طبلچی کہا کرتی ہیں، جو میری آئینی ترامیم اور ریفرینڈم کامیاب بنانے کے علاوہ آٹھ برس تک مجھے ملکی تاریخ کا کامیاب ترین حکمران ثابت کرنے کا طبلہ بجاتے رہے۔ محترمہ کے خیال میں ملک کے یہ ممتاز اور پیشہ ور طبلہ نواز میرے گرد جُھومر ڈالتے، مجھے باوردی صدر منتخب کرانے کی قوالی بھی کرتے رہے۔ بیگم صاحبہ تو خیر اور بھی بہت کچھ کہتی ہیں مگر ان کی باتیں میں کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتا ہوں۔
آج پردیس میں بیماری سے نبرد آزما ہوں، اوپر سے اشتہاری بھی ہوں مگر وطن عزیز کے ڈیلی ویجر حکمرانوں اور سیاسی بے روزگاروں کی ایک دوسرے کے خلاف بڑھکیں سنتا ہوں تو ہنسی ضبط کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اسلام آباد کے میدان جنگ میں مجھے دونوں طرف میرے سابقہ طبلچی زبان وبیان کے ہتھیاروں سے لیس صف آرا نظر آتے ہیں۔ یہ ایک دوسرے کو ایسے دھمکیاں دیتے ہیں، جیسے وہ اپنے عزائم کے سلسلے میں مکمل بااختیار ہیں۔
آزادی مارچ سے قبل میں نے مولانا فضل الرحمٰن کا بیان سنا کہ حکومت کی طرف سے مارچ روکنے کی صورت میں وہ پورا ملک بند کر دیں گے۔ دھرنے سے خطاب کے دوران بھی انہوں نے اپنے اسی عزم کا اظہار کیا کہ وہ پورا ملک بند کر کے دکھائیں گے۔ یہی احمقانہ بات عمران خان نے بھی اپنے دھرنے کے وقت کہی تھی، ’جب میں کال دوں گا، ساراملک رُک جائے گا۔‘
میرا دل چاہتا ہے کہ ان سادہ لوحوں کو اپنے سامنے بٹھا کر سمجھاؤں کہ بھلے لوگو! جیسے قانون کی رُو سے ایک جرم کی سزا دوبارہ نہیں دی جا سکتی، اسی طرح سائنس کا اصول ہے کہ جو مشینری ’ آل ریڈی‘ جام ہو، اسے دوبارہ روکا یا بند نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا تم اس کارخیر کے لیے عوام کو کسی پلان اے، بی یا سی کے چکمے دینا بند کرو۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جی چاہتا ہے کہ انہیں جھنجھوڑ کر بتاؤں، ’لال بجھکڑو! ہم اور تم باہم مل کر اور مکمل یکجہتی کے ساتھ دن رات محنت کر کے ملک کو اس نہج پر لے آئے ہیں کہ آج تمہارے ہاں بجلی بند ہے، گیس بند ہے، چولہے بند ہیں، سی این جی بند ہے، اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری بند ہے، سیاحت بند ہے، انصاف بند ہے، خوراک بند ہے، تعلیم کے دروازے بند ہیں، روزگار کے مواقع بند ہیں، صحت کی سہولتیں بند ہیں، سوچ کی آزادی بند ہے، مہنگائی سے عوام کا ناطقہ بند ہے، کنٹینروں سے شاہراہیں بند ہیں، دھرنوں سے کاروبار بند ہیں، مارچوں سے یونیورسٹیاں بند ہیں، غرض اس گلشن کا کاروبار چل کون سا رہا ہے کہ تم اسے بند کرو گے؟ لے دے کے بدنصیب شہریوں کے پاس سانس لینے کو آکسیجن بچی ہے، کیا اب اسے بھی بند کراؤ گے؟
اپنی پراسرار بیماری میں کبھی قبر کا خیال آتا ہے تو میرا دل مچلتا ہے کہ اکابرین ایم ایم اے، اصحاب ق لیگ، طاہر القادری اور عمران خان سمیت اپنے تمام سابقہ طبلچیوں کو سامنے کھڑا کر کے کہوں کہ ہاں، ہاں! ہرغیر آئینی حکمران کی طرح میں نے بھی تم جیسے آمریت کے پیشہ ور باراتیوں کے تعاون سے مکمل اختیارات کے ساتھ حکمرانی کی ہے۔ پس تمہیں اور ملکی حالات کو مجھ سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے؟ سو، غور سے سنو اے اہل جنوں کہ تمہارا ملک کیوں بند ہے اور یہ مستقل نازک دور سے کیوں گزر رہا ہے؟
یہ ملک اس لیے جام ہے کہ معقولیت کے آگے کنٹینرز کھڑے کر کے تم نے اس کا راستہ کب کا بند کر رکھا ہے۔ عقل کے راستے میں خاردار باڑ لگائے بیٹھے ہو۔ حکمت اور تدبر کی شاہراہ تم ٹائر جلا کر بند کیے ہوئے ہو۔ ہر تازہ سوچ کے راستے میں تم نے مسلح ناکہ لگا رکھا ہے۔ تمہاری فہم و دانش کا ثمر ہے کہ جہالت نے اس ملک کے گٹے گوڈوں میں مستقل دھرنا دے رکھا ہے۔ وحشت نے اس کے رگ و پے میں لانگ مارچ شروع کیا ہوا ہے۔ تم لوگ عشروں سے جذباتیت اورعدم برداشت کی سڑکوں پر آزادی سے مارچ کررہے ہو۔ تمہاری منطق کے منہ میں گالی اور دلیل کے ہاتھ میں جُوتا ہوتا ہے۔ زمینی حقائق کو جھٹلا کر تم نے اپنے اپنے خود ساختہ سچ کو حقیقت تصور کیا ہوا ہے۔ محبت اور رواداری کے خلاف مستقل احتجاجی کے طور پر تم اپنی پہچان رکھتے ہو۔ اخلاقی زوال میں تمہاراثانی نہیں۔ آمریت میں اس کا دسترخوانی گروپ کہلاتے ہو اور جمہوریت میں اس کے چیمپیئن بن جاتے ہو۔
پس مجھ جیسا غیر آئینی حکمران آئے یا تمہارے جیسا نام نہاد منتخب جمہوری رہنما، جب تک ہمارا، تمہارا سایہ اس ملک کے سر پر موجود ہے، یہ عوام کے لیے وطن عزیز اور ہمارے لیے وطن لذیذ رہے گا، تا آنکہ عوام میں سیاسی شعور آ جائے مگر اس کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ پس ’ آوے ای آوے‘ اور ’ساڈا شیر ہے، باقی ہیر پھیر ہے‘ کے نعرے بلند ہوتے رہیں گے اور ان نعروں کے ساتھ آبادی کا بے ہنگم پھیلاؤ، عدم تحفظ، بھوک وننگ، گندا پانی، غیریقینی پن، کھوکھلے وعدے، بدبُودار بڑھکیں، فالج زدہ خواب، کوڑھ زدہ بیانات، کینسرزدہ خطبات، پلی ہوئی گردنیں، نکلی ہوئی توندیں، زنگ آلود دھرنے اوردیمک زدہ مارچ شانہ بشانہ چلتے رہیں گے۔
ادوار آمریت میں ہم جیسے مضبوط اور بااختیار حکمران ٹوپی ڈرامے کرتے رہیں گے اور جمہوریت میں تم اہل سیاست کبھی ڈیلی ویجر حکمران اور کبھی سیاسی بے روزگار کے طور پر لکی ایرانی سرکس لگاتے رہو گے۔ کبھی آمریت کی چاکری چلے گی، کبھی گائیڈیڈ جمہوریت۔ کبھی تم کسی ڈکٹیٹر کے طبلچی اور ڈھولچی کہلاؤ گے، کبھی کچی نوکری والے حکمران اور سیاسی یتیم۔ کبھی جعلی سیاسی کامیابیوں کے جشن ہوں، کبھی زنگ آلود دھرنے۔ کبھی کسی کی پیٹھ تھپتھپائی جائے گی، کبھی کوئی دیمک زدہ مارچ کرے گا۔ کہیں بھوک وننگ اور گندا پانی جلوہ افروز ہوں گے، کہیں ظہرانے، عشائیے اور بلٹ پروف گاڑیاں۔ کہیں موٹی گردنیں اور نکلے ہوئے پیٹ نظر آئیں گے، کہیں ہڈیوں کے ڈھانچے۔
لگے رہو منا بھائی کہ ہمارے، تمہارے دم سے یہ ملک جام ہی رہے گا۔ انتشار و افتراق اور جنگ و جدل کے اس جنگلی ماحول میں عوام کے اصل مسائل کہیں دور ہی رہیں گے اور بحران در بحران کی شکار دنیا کی یہ عجوبہ روزگار ریاست مستقل نازک دور سے گزرتی رہے گی۔