شدید علالت کے باعث دو ماہ کی ضمانت پر ہسپتال سے رہا کیے گئے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف میڈیکل بورڈ کی سفارش اور اپنے خاندان کے کہنے پر بیرون ملک علاج کے لیے رضا مند ہو تو گئے ہیں لیکن حکومت کی جانب سے ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نہ نکالے جانے کے باعث ان کی روانگی تاخیر کا شکار ہے۔
سابق وزیراعظم کی پیر صبح نو بجے لندن کی ٹکٹ کنفرم تھی۔ شہباز شریف اور ان کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان نے بھی ساتھ روانہ ہونا تھا۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت کے مطابق ان کی حالت انتہائی تشویش ناک ہے اور بیرون ملک سفر کے لیے بار بار سٹی رائیڈ ادویات کا استعمال ان کا لاحق خطرے میں اضافے کا باعث بن رہا ہے، تاہم حکومت نے ای سی ایل سے ان کا نام نکالنے کی اجازت نیب حکام سے مشروط کر دی ہے۔
مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نہ نکالنے کی وجہ سے ان کے علاج میں تاخیر ہو رہی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ای سی ایل کا عمل مکمل ہونے پر ہی ائیر ایمبولینس منگوانے اور دیگر انتظامات شروع ہوں گے۔ بیان کے مطابق یہ تاخیر نواز شریف کی صحت کو لاحق سنگین خطرات کی قیمت پر ہو رہی ہے۔
دوسری جانب گورنر پنجاب چوہدری سرور نے دعویٰ کیا ہے کہ آج پیر کو ہی کسی بھی وقت نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکال دیا جائے گا۔
ایک بیان میں چوہدری سرور کا کہنا تھا کہ ’حکومت چاہتی ہے کہ نواز شریف جہاں سے چاہیں علاج کرائیں، یہ ان کا قانونی حق ہے۔ نواز شریف کی صحت پر کوئی رسک نہیں لینا چاہتے۔‘
نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے میں تاخیر کیوں؟
انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار ارشد چوہدری سے بات کرتے ہوئے قانون دان سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ قانونی طور پر اگر وزارت داخلہ کو درخواست دی جائے تو وہ کسی بھی شخص کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی اجازت دے سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر کسی کا نام نکالنے کے لیے کابینہ سے منظوری لی جائے تو یہ بھی بہتر ہے لیکن اگر وزارت داخلہ یہ سمجھتی ہے کہ نیب کی درخواست پر جس کا نام ای سی ایل میں ڈالاجائے تو ان کی اجازت سے ہی نکالنا چاہیے تو یہ بھی قانونی اختیار ہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت ای سی ایل میں کسی کا نام ڈالنے یا نکالنے کے قانونی طریقے اپنانے کی پابند ہوتی ہے۔
’حکومت کا ثواب دیدی اختیار ہے کہ وہ کس قانونی طریقے سے ای سی ایل قوانین کا استعمال کرتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیر صحت کیا کہتی ہیں؟
صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا ہے کہ نوازشریف ’ہائی رسک‘ مریض ہیں، ان کے بیرون ملک علاج سے متعلق وزارت داخلہ نے خط لکھا کہ بورڈ سے مشورہ لے کر دیں۔ ’ہم نے بورڈ سے پوچھا ہے کہ نوازشریف کے ایسے کون سے ٹیسٹ ہیں جو بیرون ملک سے ہوسکتے ہیں۔‘
’گذشتہ رات بورڈ میٹنگ ہوئی جس نے نوازشریف کو بیرون ملک علاج کی سفارش کی۔ حکومت نے بورڈ سے پوچھا ہے کون سے ایسے ٹیسٹ ہیں جو ہائی رسک ہیں اور ڈاکٹرز کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہماری جانب سے بورڈ پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ڈالا گیا۔‘
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چھ نومبر کو جب سروسز ہسپتال سے نواز شریف کو ڈسچارج کیا گیا تو ان کی پلیٹ لیٹس کم تھیں اور جسم اپنے طور پر پلیٹ لیٹس نہیں بنا رہا۔
ایگزیکٹ کنٹرول لسٹ کیا ہے؟
محکمہ داخلہ ریکارڈ کے مطابق ای سی ایل میں جس کا نام ڈالا جاتا ہے وہ شخص بیرون ملک سفر نہیں کر سکتا۔ ایسے افراد کو بیرون ملک روانگی کے عمل کو روکنا امیگریشن اور ایف آئی اے حکام کی ذمہ داری ہوتی ہے، اسی لیے ای سی ایل کا ریکارڈ ائیرپورٹ، بندرگاہ اور تمام بارڈر حکام کے پاس موجود ہوتا ہے۔
پاکستان میں ایگزٹ کنٹرول لسٹ کا قانون 1981میں بنایا گیا۔ پاکستانی قوانین کے مطابق جس شخص کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا جائے وہ زمینی، فضائی یا پانی کے راستے سے بھی ملک نہیں چھوڑ سکتا۔
محکمہ داخلہ کے ریکارڈ کے مطابق مختلف ادوار میں ملک کی اہم ترین شخصیات کو متعدد بار بیرون ملک رونگی سے روکنے کے لیے ان کا نام ای سی ایل میں رکھا گیا۔ اس سے قبل سابق صدر پرویز مشرف، سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف، رہنما ایم کیو ایم بابر غوری، فیصل سبزواری، حیدر عباس رضوی، خالد مقبول صدیقی اور حافظ سعید احمد سمیت کئی شخصیات کا نام بھی ای سی ایل میں ڈالا اور نکالاجاچکا ہے۔