وہ بیدار ہوئیں تو ان کا سابقہ بوائے فرینڈ بستر کی پائنتی کی جانب کھڑا تھا۔ ابتدا میں بوائے فرینڈ نے کچھ نہیں کہا۔ بس وہ وہاں کھڑا تھا۔ بعد میں خاتون نے یاد کرتے ہوئے آسٹریلیا کی ایک عدالت کو بتایا کہ ان کے بوائے فرینڈ گھورتے ہوئے خاموش کھڑے تھے اور ایسا لگتا تھا کہ ’وہ ہمیشہ سے وہاں کھڑے تھے۔‘
اس کے بعد بوائے فرینڈ نے دھیمی آواز میں کہا کہ ’آپ خوش قسمت ہیں کہ یہ میں ہی ہوں اور کوئی لٹیرا یا برا شخص نہیں جو آپ کو نقصان پہنچائے۔‘
خاتون نے عدالت کو بتایا کہ تب انہیں اس کا پتہ نہیں تھا لیکن شام کے وقت سابقہ بوائے فرینڈ کے نقب لگا کر ان کی رہائش گاہ میں داخلے کا ان کی جانب سے پہلی بار میرے سافٹ ویئر کے ذریعے تعاقب کرنے سے دور تک کوئی تعلق نہیں تھا۔ حکام نے عدالت کو بتایا کہ بوائے فرینڈ کئی ماہ سے رئیل ٹائم میں خاتون کا تعاقب کر رہے تھے۔
اس شخص نے جن کے ساتھ وہ چھ ماہ تک ڈیٹ پر جاتی رہیں، مبینہ طور پر سادہ ٹیکنالوجی اور سمارٹ فون ایپس کو ہتھیار میں تبدیل کر کے ان کا استعمال کیا اور ان کی مدد سے وہ دور رہ کر خاتون کی گاڑی سٹارٹ کرتے اور بند کرتے، گاڑی کے شیشوں پر کنٹرول حاصل کرتے اور خاتون کو مسلسل ٹریک کرتے رہے۔
خاتون نے کہا کہ ’میں اب بھی قانون کی اس خلاف ورزی اور جذباتی صدمے سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہوں جس کا مجھے تجربہ ہو چکا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جرائم کے ایسے واقعات جو آسٹریلیا کی ریاست تسمانیہ میں ہوئے ان کے بارے میں معلومات آسٹریلیا کی براڈ کاسٹنگ کارپوریشن نے فراہم کی ہیں۔ اے بی سی نے کسی متاثرہ فرد یا ملزم کا نام نہیں لیا لیکن اس کیس سے ایک پریشان رجحان پر روشنی پڑی ہے جس کے بارے میں گھریلو تشدد کے وکلا دس برس سے زیادہ عرصے سے خبردار کر رہے ہیں۔ جیسے جیسے نگرانی اور ٹریکنگ کی ٹیکنالوجی مزید ترقی کرتی اور عام ہوتی جا رہی ہے، سافٹ ویئر کے ذریعے تعاقب اور کسی قریبی شخص کے ہاتھوں تشدد کی مختلف اشکال کا مقابلہ کرنا مزید مشکل ہو جائے گا۔
گھریلو تشدد کے خلاف کام کرنے والے قومی نیٹ ورک سے منسلک سیفٹی ٹیکنالوجی کے ماہر ٹوبی شلرف نے 2017 میں کہا تھا کہ ’ٹیکنالوجی تعاقب کا سبب نہیں ہے۔ تاہم ٹیکنالوجی کو ہماری زندگی کے اتنے زیادہ شعبوں کا حصہ بنانے سے سافٹ ویئر کے ذریعے تعاقب کرنے والوں کے لیے کسی کو خوف زدہ کرنا یا نقصان پہنچانا زیادہ آسان ہو گیا ہے۔‘
اے بی سی کی رپورٹ کے مطابق آسٹریلیا والے کیس میں جس کا نتیجہ 38 سالہ شخص کی جانب سے ہوبارٹ مجسٹریٹس کورٹ میں تعاقب کرنے کے الزامات تسلیم کرنے کی صورت میں نکلا، انہوں نے جاسوسی کے لیے استعمال ہونے والا سافٹ ویئر استعمال کرتے ہوئے خاتون کے موبائل فون کی لوکیشن کا کھوج لگایا۔ وہ اس سپائی ویئر کی ماہانہ فیس دیتے ہیں۔
ٹیکنالوجی سے متعلق معلومات فراہم کرنے والی ویب سائٹ مدر بورڈ کی ’سٹاک ویئر سرویلنس مارکیٹ‘ سے متعلق ایک رپورٹ کے مطابق اگرچہ نگرانی کا یہ طریقہ پریشان کن ہے لیکن نسبتاً عام ہے اور اس کی وجہ سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد لاکھوں میں ہے۔
© The Independent