خاندان کی بڑی بیٹی ہونے کے ناطے لیما سپیسلی سوچ رہی تھیں کہ وہ اپنے والد کے ساتھ مل کر گھر کے مسائل حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
لیما دو سال سے یہی کوشش کر رہی ہیں۔2017 میں ایک مشکل امتحان میں کامیابی کے بعد لیما نے کابل یونیورسٹی جانے کی راہ ہموار کی تھی۔ اس سرکاری یونیورسٹی میں مفت تعلیم دی جاتی ہے۔ یہ چند سال صرف لیما کے لیے ہی نہیں بلکہ ان کے خاندان کے لیے بھی ’گیم چینجر ‘ ثابت ہوئے ہیں۔
پشتو ادب پڑھنا بھی ان کی مشکلات کو کم نہ کر سکا۔ لیما کے لیے گاڑی چلا کر اپنے گھر والوں کی مدد کرنا بھی ایک ممکنہ راستہ ہو سکتا تھا۔
مردوں کے معاشرے افغانستان میں خواتین کو گاڑی چلاتے ہوئے ویسے بھی جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تاہم، امریکہ کے افغانستان پر حملے کے بعد یہ سخت گیر کلچر اب رکاوٹ نہیں رہا۔
لیما اب کابل کے ’زاویہ میڈیا‘ میں بطور جزوقتی پروڈیوسر کی نوکری کر رہی ہیں اور شہر کی گہما گہمی سے آشنا ہو چکی ہیں۔
25 سالہ لیما کہتی ہیں ’میں انہیں گاڑی کا شیشہ نیچے کر کے ہاتھ ہلاتے، مسکراتے، تالیاں اور ہارن بجاتے دیکھ چکی ہوں۔ کبھی کبھی وہ پیچھا کرتے ارادتاً ٹکرا بھی جاتے ہیں۔ ایسا دیکھ کر مجھے اکثر غصہ بھی آتا ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ کابل میں ایسا عام نہیں۔‘
کابل میں خواتین کا گاڑی چلانا افغان روایات کے تحت معیوب سمجھا جاتا ہے اور مرد اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ شہر میں ایسا عام ہوتا جا رہا ہے اور سرکاری عہدوں بشمول فوج اور پولیس میں خواتین کی تعیناتی جاری ہے لیکن خواتین مخالف روایات اب بھی مضبوط ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیما کہتی ہیں: ’ہم سوچتی ہیں کہ اب ہم محفوظ ہیں۔ ہم تحفظ محسوس کرتی ہیں لیکن اس کے باوجود ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور انہیں حل کرنا ہوگا۔ خواتین ماضی کے مقابلے میں اب زیادہ بااختیار ہیں۔‘ لیما گھر کے پانچ لوگوں کی واحد کفیل ہیں۔
لیما کے لیے ڈرائیونگ سیکھنے کی ایک اور وجہ ان کے والد کی بیماری بھی تھی۔ ’مجھے اکثر رات کے وقت اپنے والد کو ان کی طبعیت خراب ہونے پر ہسپتال لے جانا پڑتا ہے۔ بطور خاتون میں آدھی رات کے وقت ٹیکسی نہیں ڈھونڈ سکتی۔ خواتین کے لیے آدھی رات گھر سے نکلتا خطرے سے خالی نہیں۔‘
افغانستان میں خواتین کا گاڑی چلانا زیادہ عام نہیں لیکن ڈرائیونگ کورسز نے خواتین کے لیے گاڑی چلانا آسان کر دیا ہے اور اب یہ رجحان بڑھ رہا ہے۔
کابل کے علاقے افشر میں روحانی نامی ڈرائیونگ سکول میں خواتین کو تحریری اسباق کے ساتھ ساتھ عملی طور پر گاڑی چلانا سکھایا جاتا ہے۔ ٹریفک نشانات اور ٹائر اتارنے لگانے سمیت اس کورس میں خواتین کو ڈرایئونگ سیکھنے میں حقیقی مدد فراہم کی جا رہی ہے۔
ڈرائیونگ کی تربیت دینے والے 32 سالہ احمد جمشید کہتے ہیں کہ’ہمارے کورس میں اب زیادہ خواتین تربیت لے رہی ہیں۔ ہماری زیادہ تر ٹرینرز یونیورسٹی طالبات ہیں اور سردیوں میں تعطیلات کی بدولت اس تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے۔‘
کابل میں ایسے دو درجن سے زائد کورسز کرائے جا رہے ہیں جہاں طلبہ کو 36 دن کی تربیت دی جاتی ہے۔
36 دن کی تربیت میں طلبہ کو عملی ڈرائیونگ اور ٹریفک قوانین سکھائے جاتے ہیں جس کی فیس 44 ڈالرز یعنی 3500 افغان ہے۔
ٹریفک پولیس کا کہنا ہے ماہانہ بنیادوں پر خواتین کو 30 سے 40 ڈرائیونگ لائسنس جاری کیے جا رہے ہیں۔
محکمے کا کہنا ہے کہ ڈرائیونگ سیکھنے والی خواتین کی بڑھتی تعداد کی وجہ خواتین کو تھیوری مفت پڑھائی جا رہی ہے اور خواتین ایک مختصر امتحان پاس کر کے لائسنس لے سکتی ہیں۔
طالبان دور میں خواتین کو تمام حقوق سے محروم رکھا جاتا تھا۔ خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت نہیں تھی حتیٰ کے کسی محرم کے بغیر گھر سے نکلنے کی اجازت بھی نہیں ملتی تھی۔
لیما کے مطابق جب امریکہ نے 2001 میں طالبان کا تختہ الٹا، تب سے خواتین کے لیے حالات بدل چکے ہیں۔ ’ہم خواتین دشمن روایات بدل رہی ہیں اور اپنے حقوق کے لیے کھڑی ہو سکتی ہیں۔‘